بلاگ
Time 08 مارچ ، 2020

زینب الرٹ بل کی منظوری کا اصل سبب

ہمارے معصوم بچوں کا تحفظ موجودہ سماجی حالات میں بہت ضروری ہے—فوٹو فائل

لاپتا اور اغوا ہونے والے بچوں کی فوری بازیابی کیلئے قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی ایک نیا اور خصوصی قانون منظور کر لیا ہے، جسے زینب انصاری نامی اس بچی سے منسوب کیا گیا ہے جو پنجاب کے شہر قصور سے اغوا ہوئی تھی اور جسے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔

9جنوری 2018ء کو زینب کی لاش قصور کے نواح میں کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔ اس پر پورے پاکستان میں شدید غم و غصے کے باعث زبردست احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ اس خصوصی قانون کو ’’زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری بل‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی قانون بنانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ کیا پہلے سے موجود قوانین میں ہمارے بچوں کو تحفظ حاصل نہیں تھا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی قوانین موجود تھے اور ان میں بچوں سمیت سب کو تحفظ مہیا کرنے اور جرم کے شکار افراد کو انصاف فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے لیکن ان قوانین پر وہ ادارے عملدرآمد نہیں کرتے، جو قوانین کے مطابق عملدرآمد کرنے کے پابند ہیں۔

اس صورتحال میں بڑے بڑے سانحات رونما ہوتے ہیں۔ جب کسی سانحہ یا کسی گروہ کے ساتھ ہونے والے مسلسل جرائم پر کوئی بڑا احتجاج ہوتا تو خصوصی قوانین کے ساتھ خصوصی عدالتیں یا ادارے بن جاتے ہیں۔ پاکستان تیسری دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے، جہاں خصوصی قوانین اور ادارے بنانے کی ’’پریکٹس‘‘ بہت زیادہ ہے۔

جو دنیا کے قانون دانوں کی نظر میں پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ ایسے خصوصی قوانین اور خصوصی اداروں بشمول خصوصی عدالتوں سے متوازی نظام جنم لیتے ہیں، جو پیچیدگیوں کا باعث ہوتے ہیں اگرچہ مخصوص حالات میں لوگوں کو مستقل نہیں بلکہ فوری ریلیف بھی ملتا ہے لیکن اس پریکٹس کو بعض حلقے غلط استعمال بھی کرتے ہیں جیسا کہ احتساب اور دہشت گردی کے حوالے سے بنائے گئے خصوصی قوانین اور خصوصی عدالتوں کے متوازی نظام میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔

زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری بل کی منظوری کی ضرورت بھی اس لیے پیش آئی کہ تھانوں میں بچوں کے لاپتا یا اغوا ہونے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹس (ایف آئی آرز) درج کرنے میں اسی طرح لیت و لعل سے کام لیا جاتا تھا، جس طرح دیگر جرائم کی ایف آئی آرز کے اندراج میں لیا جاتا ہے۔

زیادہ تر تھانوں میں تو سرے سے ہی ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی یا لوگوں کو ٹال دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایف آئی آر کا اندراج نہ کرنا بھی قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن قانون ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے ہمارے منتخب نمائندوں نے یہ محسوس کیا کہ بچوں کے لاپتا یا اغوا ہونے کی ایف آئی آر فوری درج نہ ہونے کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں کیونکہ بچوں کو تشدد، زیادتی اور استحصال کا نشانہ بنانے، انسانی اسمگلنگ میں ان کے استعمال اور انہیں قتل کرنے کے خدشات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری بل میں بچوں کے خلاف تمام ممکنہ جرائم کا نہ صرف احاطہ کیا گیا ہے بلکہ پولیس کو اس امر کا پابند بنایا گیا ہے کہ کسی بچے کے والدین یا کوئی وارث بچے کے اغوا یا لاپتا ہونے کی تھانے میں اطلاع دے تو دو گھنٹے کے اندر اندر ایف آئی آر کا اندراج لازمی ہوگا۔ اگر کوئی پولیس اہلکار ایسا نہیں کرے گا تو اسے بل کے تحت دو سال تک قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

اس بل کے تحت ’’زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی‘‘ کے نام سے ایک خصوصی ادارہ بھی تشکیل دیا جائے گا۔ لوگ اپنے بچوں کے اغوا اور لاپتا ہونے کی اطلاع اس ادارے کو بھی دے سکیں گے۔ یہ ادارہ فوراً متعلقہ تھانے کو ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کرے گا۔ ایف آئی آر فوراً درج ہونے کے بعد مغوی یا لاپتا بچے کی تلاش کے لیے فوری کارروائی کا آغاز ہو سکے گا۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس خصوصی بل کی منظوری کا بنیادی سبب ہمارے تھانوں میں ایف آئی آرز کے اندراج میں تاخیر یا پولیس میں کرپشن ہے۔ اس بل کے تحت بچوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کے خلاف مقدمہ چلانے کے طریقہ ہائے کار بھی وہی ہوں گے اور سزائیں بھی وہی ہوں گی، جو ضابطہ فوجداری اور ضابطہ تعزیرات پاکستان میں درج ہیں۔

معصوم زینب انصاری کے قاتل عمران علی کو بھی انہی قوانین کے تحت سزائے موت ہوئی ہے۔ البتہ بل میں عدالتوں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ بچوں کے خلاف جرائم کے مقدمات کا تین ماہ میں فیصلہ کریں۔

دراصل ہمیں پولیس اور کریمنل جسٹس کے نظام میں خامیوں کو دور کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔ پراسیکیوشن کے اداروں کی کمزوریوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ہم کب تک خصوصی قوانین، خصوصی عدالتیں اور خصوصی ادارے بناتے رہیں گے۔ یہ پریکٹس ان ممالک میں زیادہ ہوتی ہے، جہاں قانون نافذ کرنے یا عملدرآمد کرانے والے ادارے خلاف قانون کام کرتے ہیں اور لاقانونیت میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔

ان حالات میں زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری بل غنیمت محسوس ہوتا ہے کیونکہ ہمارے معصوم بچوں کا تحفظ موجودہ سماجی حالات میں بہت ضروری ہے۔

بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن معصوم زینب کے اندوہناک واقعہ کے بعد قومی سطح پر احتجاج کے دوران پوری قوم کی توجہ ان واقعات پر مرکوز ہوئی اور پتا چلا کہ ہمارے ملک میں ایسے بےشمار واقعات ہوتے ہیں۔ صرف قصور شہر میں ایسے درجنوں واقعات کی نشاندہی ہوگی بلکہ اس بل سے ایسے واقعات کی روک تھام اور بچوں کی فوری بازیابی میں مدد ملے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔