18 اپریل ، 2020
کورونا وائرس کی وباء نے پوری دنیا کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور دوسری جانب “ لاک ڈاؤن” نے کاروباری طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ قرضے کے بوجھ تلے ممالک جس میں ہمارا ملک پاکستان بھی شامل ہے، بین الاقوامی برادری سے قرضے معاف کرنے کی بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔
دوسری جانب کورونا وائرس کے سبب ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر سے ایک کروڑ 40لاکھ افراد کے ملازمتوں سے فارغ کیے جانے کا خطرہ بھی سروں پر منڈلا رہا ہے، اس تمام صورت حال سے ہٹ کر “ گیم آف جنٹلمین “ یعنی کرکٹ میں بھی بین الاقوامی مقابلوں کے آگے لگتے منسوخی اور معطلی کے فیصلوں نے پیسے کی ریل پیل کی چمک سے مزین اس کھیل کے رنگ کو اگر یہ کہا جائے، بہت حد تک پھیکا کردیا ہے، تو کہنا غلط نہ ہوگا۔
دنیا کی سب سے بڑی لیگ “ انڈین پریمئیر لیگ” کے 2020ء ایڈیشن کے کورونا وائرس کے سبب بروقت نہ ہونے پر انڈین بورڈ کے سر پر معاشی تنگ دستی کی تلوار لٹکتی نظر آرہی ہے۔ یہی صورت حال انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے ساتھ بھی درپیش ہے، جسے 100بال ایونٹ نہ ہونے پر ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے جب کہ بورڈ نے اعلی عہدیداروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔
سری لنکن کرکٹ بورڈ جو 2012ء کے بعد پریمئیر لیگ کرانے کا خواہش مند ہے، اس نے اپنے ملازمین کے بونس روکنے کا اعلان کردیا ہے اور کرکٹ آئرلینڈ نے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں 20فی صد کٹوتی کرنے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ منظم اور بہترین نظام سے مزین کرکٹ آسڑیلیا کی کورونا وائرس سے حالت اس حد تک پتلی ہوتی نظر آرہی ہے کہ انھوں نے ملازمین کی تنخواہوں میں حیران کن طور پر 80 فی صد کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حیران کن طور پر پی سی بی جس کے کام اور فیصلوں پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بیشتر اوقات تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، احسان مانی کی چیئر مین شپ میں عجیب و غریب انداز میں قدم اٹھاتے دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پی سی بی کے مالی معاملات میں آئی سی سی کی سالانہ فنڈنگ کا اہم کردار رہا ہے، اور چیئر مین احسان مانی نے چند روز پہلے یہ اعتراف کیا ہے کہ پی سی بی کو اس سال جولائی اور پھر آئندہ سال جنوری ، فروری تک آئی سی سی کی جانب سے 16 ملین ڈالرز 2 اقساط میں ملنے کی امید ہے۔
البتہ انھوں نے ساتھ ہی اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ آئی سی سی کی جانب سے ہمیں یہ ادائیگی بروقت نہ ہو پائے۔
احسان مانی نے کہا کہ چند سالوں کے دوران بورڈ نے اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش پر 3 ارب روپے خرچ کیے، اگرچہ ہمیں اس تناظر میں گراؤنڈز پر مزید 5 ارب روپے خرچ کرنے ہیں ، تاہم حالیہ بحران کے باعث ہم گراؤنڈز کے منصوبوں کو روکنے پر مجبور ہیں۔
دوسری جانب احسان مانی مستقبل کے ٹی وی رائٹس اور کمرشل معاہدوں کے حوالے سے بڑی رقوم ملنے کے حوالے سے تحفظات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ان حقیقتوں سے پردہ اٹھانے والے چیئرمین پی سی بی احسان مانی کے بورڈ نے گزشتہ تین روز میں بورڈ کی جانب سے 6 آسامیوں کے لیے اشتہارات دے کر ایک نئی بحث کو چھیڑ دیا گیا ہے۔
ایک ایسے مرحلے پر جب لوگوں کو ملازمتوں سے فارغ کیا جارہا ہے، مختلف بورڈز اپنے اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں کر رہے ہیں، پی سی بی کو ایسے کونسے خزانے کی چابیاں ہاتھ لگ گئیں ہیں کہ وہ اخراجات میں کمی تو دور کی بات نئی آسامیاں کے لیے اشتہارات دے رہے ہیں۔ ایسا اس وقت ہو رہا ہے جب بورڈ کے سربراہ مالی معاملات پر مستقبل کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں اور سب سے دل چسپ امر یہ ہے کہ چیئر مین پی سی بی احسان مانی، پی سی بی کو مالی اعانت فراہم کرنے والے آئی سی سی کی مالی امور کی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ کیا یہ سوالات بجا اور بروقت نہیں ؟
دوسری طرف پی سی بی کے اعلی عہدیداروں کی غیر روایتی تنخوہواں میں کٹوتی کے معاملے پر بورڈ کی سطح پر کوئی سوچ ابھرتی دکھائی نہیں دیتی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پی سی بی کے سالانہ اخراجات 4 ارب کے لگ بھگ ہیں اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سات لاکھ روپے تنخواہ ڈائریکٹر مارکیٹنگ کو دینے والا بورڈ کمرشل کنسلٹنٹ کا اشتہار کیوں دے رہا ہے؟ ماضی میں ٹی وی رائٹس میں بورڈ کے لیے بطور مشیر خدمات انجام دینے والے احسان مانی اب چیئر مین ہیں تو وہ خود براہ راست کیوں ان چیزوں کو دیکھنے کے بجائے اس تناظر میں بھی کنسلٹ ڈھونڈ رہے ہیں ؟
پہلے ہی بورڈ کے ساتھ ماہانہ آٹھ لاکھ روپے پر ایک پروڈکشن براڈ کاسٹ کنسلٹنٹ موجود ہیں تو پھر ہائی پرفارمنس سینٹر کے لیے پی سی بی کا اشتہار ایک مذاق بن گیا ہے جہاں ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس کے لیے لیول ٹو کی شرط رکھی گئی ہے جب کہ اس کے ماتحت عملے کے لیے لیول تھری کا پیمانہ سمجھ سے باہر ہے۔
خدشہ ہے کہ اس ساری صورت حال میں جب پی سی بی کے ساتھ ایک بڑے مشروب ساز ادارے کی 19سال کی رفاقت ختم ہوگئی، ٹی وی رائٹس کی نئی ڈیل ہونی ہے، پاکستان سپر لیگ 2020ء ابھی مکمل نہیں ہوا، بڑھتے اخراجات اور آمدنی پر منڈلاتے گہرے سیاہ بادل کہیں پاکستان کرکٹ کو ہاکی نہ بنا دیں۔
اس خدشے کا اظہار ٹیسٹ فاسٹ بولر اور لاہور قلندرز کے کوچ عاقب جاوید کر چکے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ 32لاکھ روپے ماہانہ لینے والے ہیڈ کوچ ، چیف سلیکٹر مصباح الحق کو فی الحال ہائی پرفارمنس سینٹر کی ذمہ داریاں بھی دے دی جائیں ، ان کے ساتھ 16ہزار ایک سو ڈالر ماہانہ لینے والے بولنگ کوچ وقار یونس کو بھی یہ ذمہ داری دی جا سکتی ہے کیونکہ ابھی کون سی ٹیم کی مصروفیات ہیں۔ اگر پی سی بی یہ بھی نہیں کرتا تو ابھی حالات کے ساتھ ان تقرریوں کو تھوڑا آگے بھی لے جایا جا سکتا ہے تاکہ موجودہ عالمی کساد بازاری میں بورڈ کو ممکنہ مالی مشکلات سے بچایا جا سکے۔