ایگزیکٹ جعلی ڈگریوں کا کام بدستور جاری رکھے ہوئے ہے، سابق سربراہ ایف بی آئی ٹاسک فورس

بدنام زمانہ کمپنی ایگزیکٹ جعلی ڈگریوں کی فروخت کا 16سال پرانا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

زاہد گشکوری کی رپورٹ کے مطابق ایف بی آئی ایجنٹ ایلین ایزیل جو ڈپلومہ اسکینڈل کی ٹاسک فورس کے سربراہ تھے، نے امریکا میں سفیر پاکستان کے نام خط میں لکھا ہے کہ ایگزیکٹ آج بھی وہی کام کر رہی ہے جو 16 سال سے کر تی آ رہی ہے، ایک جعلی ڈگری کی قیمت 199 ڈالرز سے 20 لاکھ ڈالرز تک ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایگزیکٹ کے دھندے کا 56 فیصد حصہ مشرق وسطیٰ اور 29 فیصد امریکا میں ہے۔

ایلین ایزیل کا کہنا ہے پاکستان میں ایگزیکٹ کے کال سینٹرز کے ذریعے امریکا میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ ڈپلومہ اور ٹرانسکرپٹ فروخت کیے جا چکے ہیں، ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں 83 سے زائد، ریاست میری لینڈ میں 2632 اور ورجنیا میں 1723 ڈپلومے اور ٹرانسکرپٹ فروخت کیے گئے، ممکنہ طور پر ان میں نوٹری کے تصدیق نامے، سفارت خانے کی مہریں اور تصدیق نامے شامل ہیں۔

پانچ صفحات پر مشتمل خط میں ایلین ایزل نے لکھا ہے کہ ایگزیکٹ بتاتا ہے کہ اس کے اسکولز جو دراصل جعلی ہیں امریکا میں ہیں، امریکی صدارتی اسکالرشپ کا جھانسہ دے کر نئے طلبہ کو بھی راغب کیا جا رہا ہے۔

ایلین ایزل نےاپنے خط میں انکشاف کیا کہ جس وقت ایگزیٹ کمپنی نمائشی مقاصد کےلیے اپنی عمارت کے باہر اپنا نام تبدیل کر رہی تھی، اس وقت عمارت کے اندر کمپنی کے ملازمین نے اپنا کام جاری رکھا اور جعلی ڈگریاں فروخت کرنے کا سلسلہ بند نہیں کیا جب کہ وبا کے دور میں بھی گھروں میں رہنے پر مجبور طلبہ کو بھی جھانسہ دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر ماہ 5000 طلبہ ان اداروں سے سوالات کرتے ہیں اور انرولمنٹ کی شرح 40 فیصد اور ماہانہ آمدنی تقریباً 20 لاکھ ڈالرز ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب بھی کسی ایک اسکول کےلیے رجسٹریشن کے نتیجے میں آمدنی 10 لاکھ ڈالرز تک پہنچتی ہے تو 10 ہزار ڈالرز کا بونس دیا جاتا ہے۔

سابق ایف بی آئی ایجنٹ کا کہنا ہے کہ کراچی اور اسلام آباد کے کال سینٹرز میں ایگزیکٹ کے ملازمین کی تعداد 900ہے۔

سابق ایف بی آئی ایجنٹ نے ان الزامات سے متعلق نمائندے کو بتایا کہ انہوں نے اس معاملے پر پاکستانی سفارت خانے کو پانچ وائس میلز بھیجیں اور سفیر پاکستان کے سیکریٹری سے دو بار بات بھی کی لیکن انہوں نے رابطہ نہیں کیا۔

ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس کا پس منظر

ایگزیکٹ کاجعلی ڈگری اسکینڈل 2015 میں نیویارک ٹائمز کی اسٹوری کے ذریعے سامنے آیا تھا۔

8 فروری 2016 کو امریکی سفارتخانے کے خط نے اس خبر کی تصدیق کی جس میں بتایاگیاکہ ایف بی آئی ایگزیکٹ کی ڈپلومہ مل کی تحقیقات کر رہی ہے جو امریکا اور مشرق وسطیٰ کے عوام کو جعلی ڈگریاں بیچنے میں ملوث ہے۔

تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایگزیکٹ نے کئی بین الاقوامی شیل کمپنیاں بنا رکھی ہیں تاکہ اس جرم سے حاصل رقوم چھپائی جاسکیں۔

ایف بی آئی نے ایسی تین کمپنیاں ڈھونڈ نکالیں اور ان کے نام بھی جاری کر دیے اور بتایاکہ ان کمپنیوں میں ایگزیکٹ کے شعیب شیخ اور وقاص عتیق 49، 49 فیصد شیئرز کے مالک ہیں۔

بدنام زمانہ ایگزیکٹ کےجعلی ڈگری کیس میں اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے شعیب شیخ اور دیگر ملزمان کو مجموعی طورپر بیس بیس سال قید کی سزا سنائی تھی۔

امریکی عدالت نے 2017 میں ایگزیکٹ کے اسسٹنٹ وائس پریزیڈنٹ عمیر حامد کو 21 ماہ قید کی سزا سنائی تھی اور جعلی ڈگریوں کے گورکھ دھندے سے حاصل 56کروڑ روپے کی رقم ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔

مزید خبریں :