دنیا
Time 28 جون ، 2020

ڈبلیو ایچ او کی وضاحت کے باوجود سری لنکا میں مسلمانوں کی میتیں جلانے کا سلسلہ جاری

— رائٹرز فائل فوٹو

عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا سے انتقال کرنے والے افراد کی تدفین سے متعلق نئی گائیڈ لائن کے باوجود سری لنکا میں مسلمانوں کو ان کی میتوں کو تدفین کی اجازت نہیں دی جارہی۔

مسلمانوں کی میتوں کو سرکاری سطح پر جلایا جارہا ہے جس سے مقامی مسلمانوں میں شدید غم وغصہ اور خوف پایا جاتا ہے۔ 

سری لنکا میں بسنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ حکام کورونا وائرس کی وبا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں اپنے مُردوں کو دفنانے کے بجائے غیر اسلامی طریقے سے جلانے پر مجبور کر کے اُن سے امتیازی سلوک کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سری لنکا کی مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والی 44 برس کی فاطمہ رینوزہ کو چار مئی کو ایک مقامی اسپتال میں کووِڈ 19 کے شبہے میں داخل کروایا گیا تھا۔

سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو کی رہائشی تین بچوں کی ماں فاطمہ سانس کی تکلیف میں مبتلا تھیں جس پر حکام کو شبہ ہوا کہ شاید وہ کورنا وائرس سے متاثر ہو چکی ہیں۔ 

رپورٹ کے مطابق ان کے شوہر محمد شفیق کا کہنا ہے کہ جس دن اُنہیں اسپتال میں داخل کیا گیا تھا تو ان کے خاندان کو محسوس ہوا کہ انہیں ایک پالیسی کے تحت گھیر لیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’فوجی جوانوں کے ہمراہ پولیس اہلکار ہمارے گھر آئے۔‘’انہوں نے ہمیں گھر سے باہر نکال دیا اور ہمارے گھر میں ہر جگہ جراثیم کُش ادویات چھڑکیں۔ ہم سب خوفزدہ ہوگئے لیکن انھوں نے ہمیں کچھ نہیں بتایا۔

یہاں تک کہ ہمارے گھر میں موجود تین ماہ کے بچے کو بھی ٹیسٹ کیا گیا اور وہ لوگ ہمیں جانوروں کی طرح ایک قرنطینہ مرکز لے گئے۔‘انہوں نے بتایا کہ پورے خاندان کو رات بھر کے لیے وہاں رکھا گیا تاہم اگلے دن چھوڑ دیا گیا۔

اور ہدایت کی گئی کہ اپنے آپ کو دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ میں رکھو۔ اس دوران انھیں خبر ملی کہ فاطمہ اسپتال میں ہلاک ہوگئی ہیں۔ فاطمہ کے جواں سال بیٹے سے کہا گیا کہ وہ اپنی والدہ کی میت شناخت کرنے کے لیے اسپتال آئیں۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کی والدہ کی میت گھر واپس نہیں لے جائی جا سکتی کیونکہ انہیں شبہ ہے کہ فاطمہ کی موت کووِڈ 19 سے ہوئی ہے۔

اس کے بجائے انہیں چند کاغذات پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا تاکہ ان کی والدہ کی لاش کو جلایا جا سکے۔

نوجوان کے والد محمد شفیق کا خیال ہے کہ انھیں اصل حالات سے آگاہ ہی نہیں کیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اُس (بیٹے) کو کہا گیا کہ اُس کی والدہ کے جسم سے کچھ حصے مزید ٹیسٹوں کے لیے الگ کرنے ہیں۔ اگر اُنھیں کورونا نہیں تھا تو ان کے جسم کے حصوں کو نکالنے کی کیا ضرورت تھی؟ وائرس کے ٹیسٹ کرنے والے اسٹاف نے بتایا ہے کہ فاطمہ کا ٹیسٹ مثبت نہیں آیا تھا۔ اس اطلاع کے بعد فاطمہ کے گھر والوں کے زخم دوبارہ تازہ ہو گئے ہیں۔شفیق کا کہنا تھا کہ ’ہم مسلمان اپنے مردے جلاتے نہیں ہیں۔ اگر انھیں معلوم تھا کہ فاطمہ کو کورونا نہیں ہے تو پھر اُسے کیوں جلایا؟‘

سری لنکا کے ایک سابق وزیر اور آئندہ انتخابات میں کھڑے ہونے والے ایک مسلمان امیدوار علی ظاہر مولانا کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے 182 ارکان میں سے سری لنکا واحد ملک ہے جہاں کورونا سے انتقال کرنے والے مسلمانوں کی لاشوں کو جلایا جاتا ہے۔

'تدفین سے زیرِ زمین پانی آلودہ ہو سکتا ہے'

علی ظاہر مولانا نے بی بی سی سنہالا کو بتایا کہ ’اگر ایسے سائنسی شواہد موجود ہیں جو اس دعوے کو ثابت کرتے ہیں کہ تدفین صحت عامہ کے لیے خطرناک ہے‘ تو مسلمان کمیونٹی کو حکومت کا فیصلہ قبول ہو گا۔

فاطمہ کے اہلخانہ سری لنکا میں رہنے والے اُن مسلم خاندانوں کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں جو حکومت کو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

رواں برس مارچ کی 31 تاریخ کو جب ملک میں پہلا مسلمان کورونا وائرس سے انتقال کرگیا تھا تو میڈیا کے مختلف اداروں نے کووِڈ 19 کی وبا کے پھیلاؤ کا الزام مسلمانوں پر عائد کرنا شروع کر دیا تھا۔ سری لنکا میں اس وبا سے صرف 11 ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں اور یہ 11 کی 11 میتیں دفنانے کے بجائے جلائی گئی ہیں۔

حکومت کے چیف ماہرِ وبائی امراض ڈاکٹر سوگت سماراویرا کہتے ہیں کہ یہ حکومت کی پالیسی ہے کہ تمام وہ لوگ جو کورونا وائرس سے ہلاک ہوئے یا جن پر شبہ ہو کہ ان کی موت اس وائرس کی وجہ سے ہوئی ہوگی، ان سب کی لاشوں کو جلایا جائے گا کیونکہ تدفین سے زیرِ زمین پانی آلودہ ہو سکتا ہے۔ 

ڈاکٹر سماراویرا کہ کہنا ہے کہ وزارتِ صحت کے طبی ماہرین نے ’معاشرے کی بھلائی‘ کے لیے یہ پالیسی اپنائی ہے۔تاہم مسلمان اور سماجی رہنماؤں اور سیاستدانوں نے سری لنکا کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی پر نظرِ ثانی کرے۔

مزید خبریں :