10 جولائی ، 2020
منشیات کی روک تھام کیلئے قائم کی جانے والی خصوصی عدالت، جس نے مسلم لیگ نون کے سابق رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی کو 2018ء میں ایفی ڈرین کوٹہ کیس میں عمر قید کی سزا سنائی تھی، نے اب بتایا ہے کہ اس بات کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں کہ حنیف عباسی یا ان کے اہل خانہ میں سے کسی رکن نے منشیات کے کاروبار سے اثاثے بنائے۔
جولائی 2018ء میں سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حنیف عباسی منشیات کے کاروبار میں ملوث ہیں لیکن جولائی 2020ء کے فیصلے میں اسی عدالت نے ثابت کر دیا کہ حنیف عباسی نے منشیات کے کاروبار سے اثاثے نہیں بنائے۔
اگرچہ اسپیشل کورٹ راولپنڈی کا حالیہ فیصلہ حنیف عباسی کے اثاثوں کے متعلق ہے، جنہیں اینٹی نارکوٹکس فورس چاہتی تھی کہ عدالت انہیں منشیات کے کاروبار سے بنایا ہوا دکھائے، لیکن اس صورتحال میں جولائی 2018ء کو اسی عدالت کی جانب سے سنائے گئے فیصلے پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات پیدا ہوتے ہیں جس میں متنازع انداز سے ملزم کو مجرم قرار دیا گیا اور بظاہر یہ کمزور اور سیاسی لحاظ سے قائم کیا جانے والا مقدمہ تھا۔
جولائی 2018ء کا فیصلہ اسپیشل کورٹ کے اس وقت کے جج سردار محمد اکرم نے سنایا تھا جبکہ جولائی 2020ء کا فیصلہ سہیل ناصر نے سنایا ہے۔
2018ء کے فیصلے کے مطابق، حنیف عباسی کو 500؍ کلوگرام ایفی ڈرین منشیات کے اسمگلروں کو فروخت کرنے کا قصور وار قرار دیا گیا تھا۔ اینٹی نارکوٹکس فورس چاہتی تھی کہ حنیف عباسی اور ان کے اہل خانہ کے تمام اثاثے اس بنیاد پر ضبط کیے جائیں کہ یہ منشیات کی کمائی سے جمع کیے گئے ہیں۔
تاہم، 2؍ جولائی 2020ء کو سنائے گئے فیصلے میں اسپیشل کورٹ نے اے این ایف کے کیس کو مسترد کر دیا اور حنیف عباسی اور ان کی فیملی کے تمام اثاثے بحال کر دیے۔
اسپیشل کورٹ کے تازہ ترین فیصلے میں استغاثہ سے سوال کیا گیا ہے کہ اس کیس میں کیا ’’ٹھوس‘‘ چیز پیش کی گئی ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ صرف اس بات پر انحصار کرتے ہوئے کہ مسول الیہ کوئی وضاحت پیش نہیں کر پائے کہ انہوں نے کہاں اور کیسے یہ اثاثے بنائے، عدالت ہذا سے اے این ایف نے رجوع کیا ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے ٹھوس مواد ہونا چاہئے کہ اثاثے منشیات کے کاروبار سے حاصل کیے گئے تھے۔
فیصلے میں مزید لکھا ہے کہ ذرائع سے زیادہ آمدنی اور منشیات کے کاروبار میں غیر قانونی طور پر ملوث ہو کر اثاثے جمع کرنا دو علیحدہ اصطلاحات ہیں۔ اگر کوئی شخص جواز پیش نہیں کر سکتا تو اس سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ اس نے منشیات کے کاروبار سے یہ اثاثے جمع کیے تاوقتیکہ کوئی ثبوت سامنے آئے، کیونکہ اثاثے جمع کرنے کے اور بھی کئی راستے ہیں۔
اگر مسول الیہ نے ان اثاثوں کا جواز پیش نہیں کیا تو اس لحاظ سے حنیف عباسی کیخلاف متعلقہ ادارہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی نیب بھی ہو سکتا ہے جن کے پاس سرکاری عہدہ تھا۔ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ روزِ اول سے ہی اے این ایف نے گیند عدالت کے کورٹ میں ڈال دی ہے لیکن تاثر ایسا مل رہا ہے جسے انہیں خود ثابت کرنا پڑے گا۔
یہ روش طے شدہ اصولوں کے برعکس ہے جس کے تحت یہ استغاثہ کا فرض ہے کہ وہ عدالت کو مطمئن کرے کہ اثاثے منشیات کے کاروبار سے جمع کیے گئے ہیں، ٹھوس شواہد لائے جائیں اور ثابت کیا جائے کہ ملزم اور اس کے ساتھیوں کے نام پر اثاثے منشیات کے کاروبار سے حاصل ہوئے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اپنے فیصلے کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے میرے نزدیک اس درخواست میں دم نہیں کہ مسول الیہان کے اثاثے ضبط کیے جائیں، تمام درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔
مسول الیہان کے حق میں تمام اثاثے بحال کیے جاتے ہیں۔ حنیف عباسی کو جولائی 2018ء میں جیل ہوئی تھی، انہیں ضمانت پر لاہور ہائی کورٹ نے اپریل 2019ء میں رہا کیا اور اسپیشل کورٹ کے احکامات کو معطل کر دیا۔