بلاگ
Time 02 ستمبر ، 2020

’’ لاوارث‘‘ کراچی


فوٹو: فائل 

مائیں اکثر اپنے بچوں، کی نظر اتارتی ہیں، مگر یہ سب ان بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کے وارث ہوتے ہیں، یہ توایک ’ لاوارث‘ ہے نام اپنا ’ کراچی ‘ بتاتا ہے، ہر بار ڈوبتا ہے اور پھر ابھرتا ہے اور اپنے وارث کو تلاش کرنے نکل پڑتا ہے۔

اس بار ایک قیامت سی گزر گئی، اس پر، ہر شخص کی یہاں اپنی کہانی ہے، کیا سرجانی اور کیا ڈیفنس، کیا کورنگی اور کیا اورنگی، پتا نہیں کس کس کی برسوں کی جمع پونجی ان بارشوں میں بہہ گئی۔ 

پانی اترا تو سڑکیں بھی بہہ گئیں، بجلی کے تار کھمبوں سے زمین پر آگئے نہ جانے کتنوں کو کھا گئے، گلیوں میں کھیلتے نہ جانے کتنے بچے نالوں میں ڈوب کرکھو گئے، کوئی ہے جو ان سے حساب لے، اس سب کا، مگر میں تو لاوارث ہوں میری پروا کسے ہوگی۔

سنا ہے مجھے آفت زدہ قرار دے دیا گیا، سنا ہے وزیر اعظم بھی کراچی آرہے ہیں، گھنٹوں کے لیے یادنوں کے لیے پتا نہیں، عین ممکن ہے کہ یہ سب لوگ اس لاوارث کی شناخت کریں اور پھر کچھ کریں۔ 

اب پتا نہیں یہ بڑے بڑے لوگ اس بارے میں کیا سوچیں گے، اب تو عمارت کی صرف مرمت ہی ہوسکتی ہے، سب کچھ تو تباہ کردیا ہےکیا سندھ حکومت ،کیا شہری اور کیا وفاقی حکومت، میں توDHA اور کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقے دیکھ کردنگ رہ جاتا ہوں، مگر قدرت کا کرم دیکھیں ان بارشوں نے سب کو بے نقاب کردیا ہے، کیا بلاول اور کیا مراد علی شاہ، کیا وسیم اختر اور کیا ماضی کہ حکمران اور اس شہر کے قائد سب نے خوب استعمال کیا اس شہر کا ۔

جمہوریت بے معنی بنادی ہے ان لوگوں نے، سیاست میں بھی گھس بیٹھئے آگئے ہیں، سب کی نظریں بس اس سونے کے انڈے دینے والی مرغی پر ہیں، کچھ عارضی حل تلاش کیا جائے گا ، کچھ دانا ڈالا جائے گا پانی پلایا جائے گا افسران کی باچھیں کھلیں گی نیا پیکیج دیکھ کر، 

ان راشی افسران کے کھاتے کھاتے پیٹ بڑے ہوگئےہیں مگر بھرے نہیں ہوس کا وہی عالم، چلو شاید کچھ نالے صاف ہوجائیں، کچھ سڑکیں پھر بن جائیں، اس شہر کی تو پچھلے 73 سال سے صرف کراچی کٹنگ، اور چائنا کٹنگ ہورہی ہے۔ 

ایسے ہی تونہیں ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد، لیاری ، ملیر، اورنگی ، کورنگی غرض یہ کہ نئے پرانے تما م علاقے تباہ ہوئے، اسی لیے اس شہر کو ’ لاوارث‘ رکھا کہ وارث ہوتا تو خیال بھی رکھا جاتا؟

یہ صرف اسی کے ساتھ ہوسکتا تھا کہ اچھے خاصے شہر کو تباہ کردو ، یہاں بسیں بھی تھیں اور ٹرام بھی ، سر کلر ریلوے بھی تھی اور معیاری ٹیکسیاں بھی، اس شہر نے تو سب کوووٹ دیا کیا پی پی پی، کیا جماعت اسلامی، کیا ایم کیو ایم اور اب پی ٹی آئی، مگر کراچی وفاقی دارلحکومت سے سندھ کا دارالحکومت کیا بنا مرکز اور صوبہ کی توجہ ہی ختم ہوگئی ۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ آپ کراچی پہ اتنا کیوں بولتے ، لکھتے ہیں اور بھی تو شہر ہیں؟ بات بہت حد تک درست ہے مگر کیا کوئی دوسرا شہر ہے جو پورا ملک چلاتا ہو، کوئی اور ’ منی پاکستان ، یا معاشی حب ہے، کوئی اورشہر وفاق کو70فیصد ریونیو دیتا ہے۔ یہ بس میرے جذبات تھے کوئی شاعری نہیں، تھا کبھی یہ شہر روشنیوں کا شہر،اچانک اندھیروں میں گم ہو گیا،کچھ معلوم سے نامعلوم سے لوگ آ گئے ہم سب کو کھا گئے۔

اب یہ لوگوں کی محبت کہ انہیں یہ جذبات حقیقت سے قریب تر لگے، میں تو سندھ کے ہر شہر کا نوحہ لکھنے کوتیار ہوں، حیدرآباد تو میرے دل کے قریب ہے، اس کے گلی کوچوں میں کھیل کود کر جوان ہوا ۔

کیا سندھ میں شاہ لطیف کی دھرتی سے کوئی حکمران کہہ سکتا ہے کہ میں نے یہاں تعلیم کو فروغ دیا، عام آدمی کو صحت کی مناسب سہولتیں پہنچائیں، پینے کا صاف پانی دیا۔ اچھی ٹرانسپورٹ دی، مضبوط بلدیاتی نظام دیا۔

چلیں ماضی کا کیا رونا روئیں آپ نے تو میرٹ کا کلچر ہی ختم کرکے رکھ دیا،  آئین پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے ’وارث‘ بنیں اور ایک مضبوط اور مربوط بلدیاتی نظام کی بنیاد رکھیں، یہ چند تجاویز ہیں،اگر مناسب سمجھیں تو وفاق اور سندھ مل کر حل نکال سکتےہیں۔

کراچی کی آبادی کا درست تعین ضروری ہے، اس بات پر سب متفق ہیں کہ یہ شہر تین کروڑ سے زائد لوگوں کا شہر ہے، آبادی کے تعین کے بعد یہاں کی درست حلقہ بندیاں ہوں اور اسی تناسب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے۔

کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کو مکمل بااختیار، مالی سیاسی اور انتظامی طور پر تسلیم کیا جائے ۔کراچی کی اپنی مقامی پولیس ہو جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ جنگی بنیادوں پرکراچی کو کم ازکم 10ہزار بڑی سائز کی بسیں دی جائیں جن کے اپنے ڈپو ہوں۔ کراچی سر کلر ریلوے کو6ماہ کے اندر اندر بحال کیا جائے ماضی کے ماسٹر پلان کوسامنے رکھتے ہوئے فوری طور پر نیا ماسٹر پلان بنایا جائے اور شہر کواسی کے مطابق توسیع دی جائے ۔

کراچی کو شناخت مل گئی توشہر بھی بن جائے گا۔ آخر جب سب سرجوڑ کر بیٹھے تو شہر سے 85فیصد دہشت گردی ختم ہوئی۔ اگر 92،95،1998میں سیاسی مصلحتیں اور سیاسی انجینئرنگ آڑے نہ آتی تو شہر سے دہشت گردی40سال پہلے ہی ختم ہوچکی ہوتی۔ چھوڑ دیں وہ کام جو آپ کو نہیں آتا اور کریں وہ کام جو آپ کو اچھی طرح آتا ہے۔یہی درخواست سندھ حکومت اور پی پی پی کی قیادت سے ہے 31سال سے رینجرز اس شہر میں ہے، آپ ایک اچھی پولیس نہ دے سکے۔

اب یہ فیصلہ فیصلہ سازوں نے کرنا ہے کہ وہ شعور سے کام لیں گے یا صرف شور پر گزارا کریں گے ۔ اگر اس لاوارث کی شناخت ہوگئی ہوتو کچھ بات آگے بڑھائیں ورنہ اس کو لاوارث ہی دفن کردیں کیوں انتظار کرتے ہیں کسی ایک لمحہ کا ، کسی ایک سانحہ کا، حادثہ ہوجائے یا بقول پروفیسر عنایت مرحوم،

حادثہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔