01 دسمبر ، 2020
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ کلبھوشن کیس میں فیئر ٹرائل کو یقینی بنائیں، کیس میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پرہرصورت عمل ہوگا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کو وکیل فراہم کرنے کی وزارت قانون کی درخواست پرسماعت 3 رکنی لارجر بینچ نےکی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سوال کیاکہ کلبھوشن کیس میں بھارت کاکیاموقف ہے؟
وکیل بھارتی ہائی کمیشن نے بتایا کہ دہلی میں وزارت خارجہ کی میٹنگز جاری ہیں، ڈپٹی ہائی کمشنر وکیل کی خدمات لینےکے بارے میں عدالت کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں، بھارت کو اس متعلق کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے 3 ہفتےکا وقت دیا جائے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کے وکیل کے بغیر عدالت کے سامنے پیش ہونے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پہلے وکیل مقرر کرے، وکیل عدالت کے سامنے پیش ہو کر کسی آفیشل کے پیش ہونے کی استدعا کرسکتا ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ پاکستان بھارت کو کلبھوشن جادھو تک تیسری قونصلر رسائی دینےکے لیےتیار ہے، آئندہ سماعت پر عدالت کو بتایا جائے کہ بھارت وکیل کی خدمات لینا چاہتا ہے یا نہیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیےکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ کلبھوشن کیس میں فیئر ٹرائل کو یقینی بنائیں،کیس میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہرصورت عمل ہوگا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نےکیس کی سماعت 14 جنوری تک ملتوی کردی ہے۔
کلبھوشن جادھو کیس کا پس منظر
3 مارچ 2016ء کو پاکستان نے ملک میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خلاف ایک اہم کامیابی حاصل کرنے کا اعلان کیا اور بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کو ایران کے سرحد ی علاقے ساروان سے پاکستانی صوبے بلوچستان کے علاقے مشاخیل میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا۔ بھارتی جاسوس کے قبضے سے پاسپورٹ ، مختلف دستاویزات، نقشے اور حساس آلات برآمد ہو ئے۔
ابتدائی تفتیش میں بھارتی جاسوس نے اعتراف کیا کہ وہ انڈین نیوی میں حاضر سروس کمانڈر رینک کا افسر ہے اور 2013 سے خفیہ ایجنسی 'را' کیلئے کام کررہا ہے جب کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے، بلوچستان اور کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کرنا اس کا اہم مشن تھا۔
21 ستمبر 2016ء کو کلبھوشن جادھو کے خلاف ملٹری کورٹ میں کارروائی کا آغاز کیا گیا اور متعدد سماعتوں کے بعد 10 اپریل 2017ء کو ملٹری کورٹ نے کلبھوشن جادھو کو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت کا حکم دیا جس کی توثیق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی۔
اس کے بعد بھارت کی جانب سے عالمی عدالت میں معاملہ لے جانے کے سبب کلبھوشن کی سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا۔
17 جولائی 2019ءکو عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن جادھو کی بریت اور بھارت واپسی کی بھارتی درخواست مسترد کردی۔
اپنے فیصلے میں عالمی عدالت انصاف نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے اور اسے دی جانے والی سزا پر نظر ثانی کرے، عالمی عدالت کے مطابق پاکستان کی ہائی کورٹ جادھو کیس پر نظر ثانی کر سکتی ہے اور پاکستان کی سپریم کورٹ بھی نظر ثانی کا حق رکھتی ہے۔
عالمی عدالت کے فیصلے پر عملدر آمد کے لیے حکومت نے خصوصی آرڈیننس جاری کیااور کلبھوشن جادھو کی سزا کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہےکہ کلبھوشن جادھو نے سزا کے خلاف درخواست دائر کرنے سے انکار کیا اور کلبھوشن بھارت کی معاونت کے بغیر پاکستان میں وکیل مقرر نہیں کر سکتا جب کہ بھارت بھی آرڈیننس کے تحت سہولت حاصل کرنے سے گریزاں ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت کلبھوشن جادھو کے لیے قانونی نمائندہ مقرر کرے تاکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق پاکستان کی ذمہ داری پوری ہو۔