10 دسمبر ، 2020
وزیراعظم کے کزن امریکہ سے آکر خیبر پختونخوا کے اسپتالوں کا نظام ٹھیک کرنے میں لگے ہوئے، ہمیں بھاشنوں، تقریروں میں بتایا، رٹایا جاتا رہا کہ پورے پاکستان میں کے پی وہ صوبہ جس کا صحت کا نظام سب سے بہتر، حالانکہ موجودہ و سابقہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان خیبرپختونخوا اسپتالوں کے برے حالات بتاتے رہے، اب صوبے کے دوسرے بڑے سرکاری اسپتال کا حال دیکھیے،
اسپتال کا ’پاکستان آکسیجن‘ نامی کمپنی سے مریضوں کیلئے آکسیجن فراہمی کا 2015میں معاہدہ ہوا، 2017میں یہ معاہدہ ختم ہو گیا اور تب سے اب تک اسپتال انتظامیہ ایڈہاک بنیادوں پر کمپنی سے آکسیجن لے رہی، گزشتہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب جب اسپتال سے آکسیجن ختم ہوئی، 6مریض تڑپ تڑپ کر مر گئے۔
تب اسپتال کے 100سٹینڈ بائی آکسیجن سلنڈر نجانے کہاں تھے، ذرا سوچئے، اگر خیبرپختونخوامیں مسلم لیگ کی حکومت ہوتی، یہ سب کچھ ہو جاتا توا ب تک تحریک انصاف نے ہال دہائیاں ڈال ڈال زمین آسمان ایک کردینا تھا، ابھی تک عمران خان پریس کانفرنس کھڑکا چکے ہوتے، لیگی حکومت قاتل ہوتی، پوری مسلم لیگ منہ چھپاتی پھر رہی ہوتی۔
یہاں یہ بھی بتانا، اگر مسلم لیگ، پی پی حکومت میں آکسیجن نہ ہونے سے سرکاری اسپتال میں 6لوگ مرجاتے تو عمران خان کا پہلا مطالبہ ہوتا، وزیراعلیٰ استعفیٰ دیں، وزیرصحت مستعفی ہوں، ان کے خلاف مقدمے قائم کئےجائیں، مگر جب اپنی باری آئی تو نہ صرف 6قتلوں کے باوجود وزیراعلیٰ، وزیر صحت موجود بلکہ ڈھیٹ پن کی انتہا دیکھیے 80سے زائد جان لیوا ریلوے حادثے ہوچکے۔
وزیر موصوف شیخ رشید قائم دائم، غلام سرور پی آئی اے پر خود کش حملہ کر کے بھی وزارت کے مزےلُوٹ رہے، آٹا، گندم، چینی، پٹرول جیسی ’چولیں‘ مار کر سب کے سب وزیر مزے میں، حتی کہ مہنگائی بڑھانے، بروقت آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے والے بھی عہدوں پر، بس ایک ادویات اسکینڈل ایسا، جس کے بعد عامر کیانی سے وزارت لی گئی، یہ علیحدہ بات انہیں پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا،
یہاں عین کورونا کے عروج میں جلسہ جلسہ کھیلتی قوم سے کہنا، دیکھ لی اپنی حیثیت، اوقات، کہیں سڑکوں پر بچے جننے پڑیں، کہیں کتا ویکسین نہ ملے، کہیں وینٹی لیٹر نہ ملے، کہیں وینٹی لیٹر ہوتو آکسیجن ختم ہوجائے، مطلب اسپتال میں جگہ نہ ڈاکٹر، نرس نہ دوائی، اب بھی انہی کے جلسوں میں ناچنا جن کی وجہ سے تمہاری زندگیاں جانوروں سے بدتر تو ناچتے رہو بلکہ گھنگھرو باندھ کر ناچو، یہاں یہ بھی بتانا،
یہ پشاور اسپتال کا حال، چھوٹے شہروں کے اسپتالوں کا کیا حال ہوگا، یہ خیبرپختونخوا کے دوسرے بڑے سرکاری اسپتال کی حالت، اس سے چھوٹے سرکاری اسپتالوں کی کیا حالت ہوگی، یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میری پیار ی قوم آپ کے بڑوں کی صحت خراب ہوئی تو ان کا دنیا کے بہترین اسپتالوں میں علاج ہوگا، دنیا کے بہترین ڈاکٹر علاج کریں گے، اگر خدانخواستہ تمہاری صحت خراب ہوئی تو یہی ہوگا، جو ہوا۔
جب بات ہورہی خیبر پختونخوا کی تو جاتے جاتے یہ بھی سنتے جائیے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں جمع کرائی گئی بی آرٹی آڈٹ رپورٹ کے مطابق 2ارب 77کروڑ 47لاکھ کی بے ضابطگیاں ہوئیں، ڈیزائن تبدیلی کی وجہ سے منصوبے کی لاگت میں 17ارب کا اضافہ ہوا،
منصوبے کی ابتدائی لاگت 49ارب سے بڑھ کر 66ارب روپے ہوئی، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق چیف سیکرٹری سمیت کئی افسروں نے ایک کروڑ 77لاکھ کی اضافی تنخواہیں وصول کیں، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بی آر ٹی بسوں کو چلانے کیلئے حکومت کو سالانہ ایک ارب 60کروڑ سے لیکر اڑھائی ارب تک سبسڈی دینا پڑے گی، اب باقی چھوڑیں، لیگی دور کا میٹرو منصوبہ ہو یا اورنج ٹرین منصوبہ، عمران خان کا سب سے بڑا اعتراض یہی کہ یہ منصوبے حکومت پر بوجھ، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ منصوبے اپنا خرچہ خود اٹھاتے یا منافع کماتے، الٹا ان منصوبوں کیلئے حکومت کو ہر روز پیسے دینا پڑیں گے، اب اپنے بی آرٹی منصوبے میں بھی ڈیڑھ سے اڑھائی ارب سالانہ سبسڈی دینا پڑے گی، اِس منافقت پر بندہ کیا کہے۔
اب آجائیے اس بات پر، کیا اپوزیشن استعفیٰ دے گی، سیاسی تاریخ دیکھیں تو ماضی قریب میں پاکستان تحریک انصاف نے استعفے دیے، استعفے دیتے ہوئے اکثریت کہہ رہی تھی عمران خان نے مروا دیا، دو چار نے استعفے دینے سے انکار بھی کردیا، بعد میں سب نے استعفے واپس لے لئے اور ایک ایک دن کی تنخواہ بھی وصول کی، ابھی جب چیئرمین سینیٹ کےخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو ناکامی پر پی پی سینیٹرز نے اپنے استعفے بلاول بھٹو کے پاس جمع کروائے جسے خواجہ آصف نے سیاسی شعبدہ بازی قراردیا، خواجہ آصف نے تو یہ بھی کہا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد ناکامی کے ذمہ دار زرداری صاحب، پیٹھ میں چھرا گھونپا،خواجہ آصف بھول گئے کہ ان کے اپنوں نے بھی پیٹھ میں چھرے گھونپے، ویسے کمال لوگ ہیں یہ سب، ایک طرف جب قیمت اچھی لگے،وصول کر لیں، دوسری طرف ملکہ جذبات جیسے ڈرامے، مگرمچھ کے آنسو، اس بار استعفے، ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت، بلاشبہ سب پارٹیاں مستعفی ہونے کیلئے تیار نہیں، تبھی 31دسمبر کی تاریخ دے کر سب کو وقت دیا گیا،
پی پی کیلئے سندھ چھوڑنا، بہت بڑا جوا، ویسے پی پی جس دن سندھ چھوڑے گی وہ دن سندھ اور سندھیوں کیلئے عید کا دن ہوگا، مسلم لیگ میں سے ایک دھڑا ابھی تک نہ صرف استعفوں کے حق میں نہیں بلکہ اس اقدام کی مخالفت کر رہا تبھی مریم نواز کو کہنا پڑ رہا کہ استعفے نہ دینے والوں کا عوام گھیراؤ کریں گے
نواز،مریم اور مولانا کے بس میں ہو، بیک ڈور امیدیں ختم ہو جائیں تو استعفے آبھی سکتے ہیں مگر ابھی کچھ کہنا ناممکن، اگلے اڑھائی تین ہفتے اہم، اعصابی جنگ شروع ہوچکی، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔