Time 14 جون ، 2021
بلاگ

’’میں اُس کا قتل کروا دوں گا‘‘

امریکہ افغانستان میں اپنی تاریخی شکست کے بعد اپنی فوجیں وہاں سے نکال رہا ہے لیکن اس دوران اُس کی کوشش ہے کہ کچھ ایسے حالات ضرور پیدا کر دیے جائیں کہ جس سے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا ہوں۔ ماضی کی طرح امریکہ کو کوئی فکر نہیں کہ افغانستان میں اس کے نکلنے کے بعد وہاں کیا ہوتا ہے اور حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں؟

اُس کی البتہ یہ خواہش ضرور ہوگی کہ پاکستان کے لئے مشکلات بڑھیں اور سب سے بڑی کامیابی امریکہ کے لئے یہ ہو گی کہ پاکستان امریکہ کو اڈے (Air Bases) فراہم کر دے۔ 9/11کے بعد پاکستان کو نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا درجہ دے کر افغانستان پر حملہ کیا لیکن اصل میں افغانستان بہانہ جبکہ پاکستان نشانہ تھا جس کے اندر دہشت گردی کو دھکیلا گیا، دہشت گردوں کو افغانستان میں مکمل سپورٹ دی گئی۔ 

یہ امریکی سازش جلد ہی پاکستان کی سمجھ میں آ گئی اور پھر پاکستان نے وہ کیا جو اُسے کرنا چاہئے تھا اور جس کا مقصد پاکستان مخالف سازش کو ناکام بنانا تھا۔

اگر امریکہ نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کی تو پاکستان نے بھی اس کو خوب جواب دیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یاد رہے کہ سابق آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے اپنے دور میں اُس وقت کے امریکی صدر اوباما کو کئی صفحات پر مشتمل ایک نان پیپر (Non Paper) دیا تھا جس میں اس سازش کا واضح ذکر تھا کہ امریکہ پاکستان میں افراتفری پھیلانے کے ساتھ ساتھ اسلامی ملک کے نیو کلیئر پروگرام کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ ہم نے امریکہ کے لئے جو کچھ کیا اُس کے بدلے میں ہمیں ہی بدامنی، دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو خوب اندازہ ہے کہ اس وقت امریکہ کو ہوائی اڈے دینے کا مطلب پاکستان کو ایک بار پھر اُس بدامنی اور دہشت گردی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہو گا جس سے ہم نے بہت قربانیوں کے بعد جان چھڑائی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان امریکہ کی اس نئی سازش کا شکار نہیں ہو گا۔ مسلمانوں کے خلاف امریکی سازشوں سے تقریباً سب مسلمان ممالک واقف ہیں لیکن اس کا اظہار کرنا ہر کسی کے لئے ممکن نہیں۔

جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر فرید پراچہ نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی خود نوشت ’’عمرِ رواں‘‘ میں 2020کے معاہدہ افغانستان جسے میں دراصل امریکہ کی اپنی شکست تسلیم کرنے کا معاہدہ قرار دیتا ہوں، کے حوالہ سے لکھا کہ اس سلسلہ میں قطر کا کردار تاریخی تھا۔ عرب ممالک کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ چاہتے وہ بھی وہی ہیں جو امت کی عمومی رائے اور پکار ہے لیکن وہ امریکہ کی مخالفت برداشت نہیں کر سکتے۔

9/11کے بعد جب امریکہ اور اُس کے چالیس اتحادی ممالک کی فوجیں افغانستان میں اتریں تو اُس دوران ایک عرب ملک کے اپنے دورے کا ذکر کرتے ہوئے پراچہ صاحب لکھتے ہیں کہ اُن کی وہاں کے حکمران خاندان کی ایک معزز شخصیت کے مشیر سیاسی امور سے ملاقات ہوئی جس میں عالمِ اسلام کی صورتحال پر تشویش کے جذبات ایک جیسے ہی تھے۔ عرب رہنما کے سیاسی مشیر کا حوالہ دیتے ہوے پھر لکھتے ہیں:

’’اُنہوں نے کہا کہ ہمارے عرب ممالک یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر امریکہ کو افغانستان میں نہ روکا گیا تو اگلا ہدف پاکستان اور عالمِ اسلام کے چند دیگر موثر ممالک ہوں گے۔

اس اہم مقصد کے لئے عرب ممالک پاکستان کی بھرپور مالی مدد کر سکتے ہیں لیکن مخمصہ یہ ہے کہ کیا پرویز مشرف پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور کیا یہ اطلاع امریکہ تک تو نہیں پہنچ جائے گی؟ اس سلسلے میں اُنہوں نے میری رائے طلب کی۔ میں نے کہا آپ صرف پرویز مشرف تک محدود نہ رہیں۔ ہماری فوج محب وطن بھی ہے اور عالمِ اسلام کی خیر خواہ بھی۔ اس لئے آپ فوجی ذمہ داران کی ٹیم کے باقی افراد پر اعتماد کریں اور اس سلسلے میں مثبت پیش رفت کریں۔ کون سمجھ سکتا تھا کہ اس طمطراق سے افغانستان کو ملیا میٹ کرنے کے دعوے سے آئی ہوئی سپر پاور پھر امن مذاکرات کے لئے عرب ممالک بالخصوص قطر سے رابطہ کرے گی‘‘۔

پرویز مشرف کے دور میں ہی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ایک نیشنل سکیورٹی ورکشاپ میں اپنی شمولیت کا ذکر کرتے ہوئے پراچہ صاحب لکھتے ہیں کہ ایک روز پرویز مشرف نے بھی اس ورکشاپ سے خطاب کیا۔

خطاب کے بعد پراچہ صاحب نے پرویز مشرف سے سوال کیا کہ جب آپ نے وار آن ٹیرر میں فرنٹ لائن پارٹنر بننے کا فیصلہ کیا تو آپ نے سات نکاتی ایجنڈا دیا تھا کہ اس فیصلہ سے ہمیں سات پہلوؤں سے فائدہ ہو گا تو کیا آپ کو فائدہ ہوا ہے؟ کیا اب بھی وقت نہیں کہ آپ اپنی پالیسی کا آڈٹ کریں کہ آپ نے صرف امریکہ کی تابعداری کرکے کیا حاصل کیا اور کیا اپنے سارے انڈے ایک ٹوکری میں رکھنے کا فیصلہ کوئی دانشمندی کا فیصلہ ہے؟ ’’پرویز مشرف نے میری بات سے اتفاق کیا اور پالیسی تبدیل کرنے کا عندیہ دیا‘‘۔ اس دوران پرویز مشرف سے اکبر بگٹی کے متعلق ایک سوال ہوا جس کے جواب کے بارے میں پراچہ صاحب نے کچھ یوں لکھا:

’’میں جانتا ہوں وہ کہاں ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھے قتل کرے میں اس کا قتل کروا دوں گا۔ ہال میں سناٹا چھا گیا، بعد میں ایسے ہی ہوا‘‘۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔