بلاگ
Time 27 ستمبر ، 2021

اسلامی نصاب پر اعتراض کرنے والوں کے لیے!

ہودبھائی سن لو، ڈاکٹر نئیر بھی سن لیں، نیوٹن کو دوپٹہ پہنانے والی وزارت تعلیم کی ایڈوائزر بھی سن لیں اور وہ طبقہ جو نئے تعلیمی نصاب کے متعلق اسلام کو زیادہ پڑھانے پر اعتراض کر رہا ہے سب سن لیں۔

بلکہ میڈیا پر بیٹھ کر نصاب کو متنازعہ بنانے کے لیے جھوٹی باتیں گھڑنے والے اور یہ کہانیاں سنانے والے نام نہاد ایکسپرٹ جو کہتے ہیں کہ ایک سو والدین نے وزیر اعظم کو تعلیمی نصاب کے متعلق اپنے اعتراضات پر مبنی خط لکھ دیا ہے( مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ اکثر والدین بھی معترض ہیں) ،وہ بھی سن لیں کہ تازہ ترین گیلپ سروے کے مطابق پچانوے فیصد (95%) پاکستانی پنجاب حکومت کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں جس میں انہوں نے صوبے کے اسکولوں میں قرآن کریم کی تعلیم کو بطور مضمون پہلی تا بارہویں جماعت تک لازمی قرار دینے کے فیصلے کی حمایت کی۔

چار فی فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا جبکہ صرف ایک فیصد کو اس فیصلے پر اعتراض تھا۔ سروے میں ملک بھر سے شماریاتی طور پر منتخب خواتین و حضرات سے یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ حال ہی میں پنجاب حکومت نے صوبے بھر کے اسکولوں میں قرآن کریم کی تعلیم کو بطور مضمون پہلی تا بارہویں جماعت تک لازمی قرار دیا ہے۔ بعض لوگ پنجاب حکومت کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ بعض لوگ حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ سروے کے مطابق شہری علاقوں اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والوں نے تقریباً یکساں طور پر پنجاب حکومت کے اس فیصلے کی حمایت کی۔اس سروے کے لیے پاکستان کے چاروں صوبوں کی دیہی و شہری آبادی کے 1418 مرد و خواتین سے 13 اگست تا 5 ستمبر میں رابطہ کیا گیا۔

اگرچہ اس سروے میں صرف پنجاب کے فیصلہ کا ذکر کیا گیا جبکہ حقیقت میں خیبر پختون خواہ، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی یہ فیصلہ کر چکےہیں جس کے مطابق پہلی جماعت سے پانچویں تک ناظرہ قرآن کریم پڑھایا جائے جبکہ چھٹی کلاس سے بارہویں تک قرآن کریم کا ترجمہ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے تمام طلبا و طالبات کو پڑھایا جائے گا۔ 

سندھ نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا لیکن سندھ کے وزیر سعید غنی صاحب کے مطابق سندھ کے سکولوں میں ناظرہ قرآن پہلے سے پڑھایا جا رہا ہے۔ لیکن کیا صوبے کے تمام سکولوں بشمول پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بھی اس فیصلے کا نفاذ ہو رہا ہے کہ نہیں؟ اس بارے میں کوئی وضاحت موجود نہیں۔ جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا کہ باقی تمام صوبوں میں تو قرآن کریم کو ترجمہ کے ساتھ بھی پڑھانے کا فیصلہ ہو چکا امید ہے سندھ بھی اسلامی تعلیمات ، آئین پاکستان کی منشاء اور پاکستان کے اکثریت کی خواہش کو سامنے رکھتے ہوے تمام نجی و سرکاری اداروں میں قرآن کریم لازمی ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کا حکمنامہ جاری کرے گی۔

ایک چھوٹے سے طبقہ کی طرف سے اسلام پڑھانے پر اعتراض کی وجہ سے ہم کیوں اپنے بچوں کو قرآن کریم سے دور کریں۔ بلکہ جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ہدایت جاری کی کہ آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت میں سیرت نبی ﷺ کو لازمی پڑھایا جائے۔ قرآن و حدیث کو جب ہماری نسلیں پڑھیں گی تو اُن کو اسلام کی اصل سمجھ ہو گی، وہ بہت اچھے انسان اور اچھے مسلمان ہوں گے اور جس بھی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں گے، دین کی حدود و قیود کا خیال رکھیں گے جس سے ہماری دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور جائے گی۔ 

گیلپ سروے نے یہ بھی ثابت کیا کہ پاکستان کے عوام اسلام سے محبت کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام کا نفاذ ہو جس کے لیے ریاست کو اب عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان کے مسلمانوں کےساتھ قیام پاکستان سے اب تک دھوکہ ہوتا رہا، اسلام کا نام بار بار لیا جاتا رہا، اسلامی آئین بھی ملک کو دے دیا گیا لیکن ہمارا سسٹم، ہمارا نظام، ہماری عدلیہ، پارلیمنٹ، قوانین سب کچھ گوروں کی نقالی اور مغرب کی اندھی تقلید کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ اسلام ہمارا فخر ہے، اس کو اسی فخر کے ساتھ نہ صرف یہاں نافذ کریں بلکہ دنیا کے سامنے پیش کریں جو بحیثیت مسلمان ہمارا دینی فریضہ ہے۔

حرف آخر: آخر میں نیوٹن کو دوپٹہ پہنانے والی وزارت تعلیم کی خاتون کے کالم کے حوالے سے یہ بات میں کہنا چاہوں گا کہ اُن کی طرف سے ٹی وی پروگرام میں کہی گئی باتوں اور اُن کے دی نیوز میں لکھے گئےمضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کو تعلیمی نصاب کے اسلامی حصہ پر اعتراض ہے۔ 

میرا یہ بھی خیال ہے کہ جو کچھ اُنہوں نے ایک ٹی وی چینل پر بولا اُس میں وہ غیر محتاط تھیں اور الفاظ کا چناؤ بھی درست نہ تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں یا کوئی اور اُن کی مسلمانیت اور ایمان پر ہی سوال اُٹھا دیں۔ مجھے اُن کی وزارت تعلیم میں تقرری پر اعتراض ہے اور اُس کی وجہ اُن کی وہ سوچ ہے جس کا اُنہوں نے اپنے مضامین اور اپنی باتوں میں اظہار کیا۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔