ڈسکہ الیکشن: اسسٹنٹ کمشنر کے سیاسی رہنماؤں، مشکوک کرداروں سے رابطوں کا انکشاف

ڈسکہ ضمنی الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ میں مزید انکشافات سامنے آئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فردوس عاشق اعوان سابق اسسٹنٹ کمشنر (اے سی) ڈسکہ آصف حسین کے دفتر میں اجلاسوں کی صدارت کرتی تھیں، سابق ڈی پی او حسن اسد علوی نے اعتراف کیا کہ پولیس لائن سیالکوٹ میں 17 فروری کو اجلاس ہوا جس میں عثمان ڈار نے بھی شرکت کی۔

رپورٹ کے مطابق سابق اے سی ڈسکہ مشکوک کرداروں سے بھی رابطے میں رہے، سابق ڈسٹرکٹ پولیس افسر حسن اسد علوی نے بھی اعتراف کیا کہ پریذائیڈنگ افسران (پی اوز) کو نجی گاڑیوں میں لے جایا گیا، تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ پی اوز کے فون چھینے گئے اور روٹ بدلے گئے۔

الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سابق ڈی سی سیالکوٹ ذیشان لاشاری کی لوکیشن زہرہ اسپتال میں آئی مگر وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس اسپتال کا کوئی علم نہیں کیوں کہ موبائل گن مین کے پاس ہوتا ہے، ساتھ یہ بھی کہہ گئے کہ چیف الیکشن کمشنر کا فون اس لیے نہیں اٹھا سکا کہ شاید میں سو رہا تھا۔

الیکشن کمیشن کی این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں انتظامی افسران کے خلاف تحقیقات کی رپورٹ جاری کردی۔

ڈسکہ رپورٹ کی فائنڈنگز میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) سیالکوٹ کا مشکوک مقامات پر ہونا ان کے غیر جانبدار ہونے پر سوالیہ نشان ہے۔ غیر قانونی ہدایات دے کر اے سی ڈسکہ پریزائیڈنگ افسران کو ہراساں کر رہے تھے، ڈی پی او اور ایس پی سیالکوٹ پولنگ کے دوران اپنے گھروں پر رہے، اس سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ڈی پی اور اور ایس پی کو علم تھا کہ پولنگ کے دن امن و امان کی صورت حال خراب ہو گی۔

رپورٹ کے مطابق سابق ڈی سی سیالکوٹ ذیشان جاوید لاشاری نے اہم سیاسی شخصیات سے ملاقات کا اعتراف کیا، اپنے بیان میں ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے میاں اسلم اقبال نے مطالبہ کیا کہ ضمنی الیکشن میں یکساں مواقع دیے جائیں کیوں کہ یہ مسلم لیگ ن کا مضبوط حلقہ ہے۔ ان کے ساتھ ڈپٹی سیکرٹری وزیر اعلیٰ آفس علی عباس بھی رابطہ کرتے تھے، پانچ چھ بار وہ سیالکوٹ آئے تو دفتر اور گھر پر ملاقاتیں کیں، حکومت نے دباؤ نہیں ڈالا صرف حلقے کی منیجمنٹ کی خواہش ظاہر کی۔

سابق ڈی سی ذیشان جاوید نے یہ بھی کہا کہ 19 فروری کو چیف الیکشن کمشنر کا فون اس لیے نہیں اٹھایا کیوں کہ شائد تب سو رہا تھا۔

سابق ڈی پی او حسن اسد علوی نے اپنے بیان میں کہا کہ پولیس لائن سیالکوٹ میں 17 فروری کو اجلاس ہوا جس میں عثمان ڈار نے بھی شرکت کی، تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ پریزائیڈنگ افسران کو نجی گاڑیوں میں لے جایا گیا اور ان کے فون چھینے گئے، روٹ بھی بدلے گئے۔

سابق اے سی ڈسکہ آصف حسین نے بیان میں کہا کہ ڈپٹی سیکرٹری وزیر اعلیٰ ہاؤس علی عباس ان کے کیمپ آفس آئے، رپورٹ کے مطابق اے سی نے گھر پر اجلاسوں کے انعقاد کا اعتراف بھی کیا جس میں سیاسی شخصیات نے شرکت کی، اے سی نے کہا کہ سیاستدانوں کے ضمنی الیکشن میں ملوث ہونے کے حوالے سے کمیشن قائم کیا جانا چاہیے کیوں کہ وہ ہی اصل فائدہ اٹھانے والے ہیں۔

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پی ٹی اے ڈیٹا کے مطابق اے سی ڈسکہ نہ صرف اہم سیاسی رہنماؤں بلکہ مشکوک کرداروں سے بھی رابطے میں رہے۔ اے سی کی رہائش گاہ پر غیر قانونی سرگرمیاں ہوئیں، اجلاسوں میں حکومتی ارکان نے شرکت کی، اسپیشل سیکرٹری ایچ ای سی پنجاب نعیم غوث کو بلا کر سیالکوٹ محکمہ تعلیم کے پریزائیڈنگ افسران کو مینیج کرنے کا کہا گیا، وزیر اعلی کی اس وقت کی مشیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعون اے سی آفس میں اجلاسوں کی صدارت کرتی تھیں۔

ڈسکہ رپورٹ کی فائنڈنگز میں کہا گیا ہے کہ ڈی سی سیالکوٹ کا مشکوک مقامات پر ہونا ان کے غیر جانبدار ہونے پر سوالیہ نشان ہے۔ غیر قانونی ہدایات دے کر اے سی ڈسکہ پریذائیڈنگ افسران کو ہراساں کر رہے تھے، ڈی پی او اور ایس پی سیالکوٹ پولنگ کے دوران اپنے گھروں پر رہے، اس سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ڈی پی اور اور ایس پی کو علم تھا کہ پولنگ کے دن امن و امان کی صورت حال خراب ہو گی، پریزائیڈنگ افسران کے بیانات سے شراکت داروں کے درمیان پیسے کی تقسیم کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ڈسکہ الیکشن کا تنازع کیا ہے؟

خیال رہے کہ 19 فروری کو این اے 75 ڈسکہ میں ضمنی انتخاب ہوا، یہ نشست ن لیگ کی امیدوار نوشین افتخار کے والد کی وفات پر خالی ہوئی تھی۔ ن لیگ نے نوشین افتخار جبکہ پی ٹی آئی نے علی اسجد ملہی کو میدان میں اتارا تھا۔

این اے 75 ڈسکہ میں 19فروری کو ہونے والے انتخابات کے بعد انتظامی امور میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

جیو نیوز کے مطابق 360پولنگ اسٹیشنوں میں سے20 پولنگ اسٹینشوں کاعملہ تبدیل جب کہ ایک پولنگ اسٹیشن پر پریذائیڈنگ آفیسر بھی بدل دیاگیا تھا۔

19 فروری کو پولنگ کے دوران این اے 75ڈسکہ میں فائرنگ، مارپیٹ، دھکم پیل جیسے مناظر دیکھنے میں آئے اور یہی نہیں پولنگ اسٹیشن میں کبھی ووٹرزکی قطاریں لگ جاتیں تو کبھی پولنگ اسٹیشن کے دروازے بند کر دیے جاتے۔

مسلح افراد سارا دن موٹرسائیکل پر گشت کرتے نظرآئے جب کہ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اس دن سارا دن فائرنگ ہوتی رہی جس کے باعث علاقے میں لوگوں کا نکلنا محال ہوگیاتھا۔

ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا مرحلہ آیا تو نئی صورتحال سامنے آگئی، 360 میں سے337 پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ موصول ہوسکا جب کہ 23 ارکان پر مشتمل انتخابی عملہ لاپتا ہوگیا تھا ، فون کیے جانے کے بعد 3 افسران کے علاوہ کوئی واپس نہ آیا۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن اسلام آباد متحرک ہوا اور ریٹرنگ آفیسر سے رپورٹ طلب کرکے حقائق طلب کیے جس کے بعد پورا الیکشن کالعدم قرار دے دیاگیا۔

بدنظمی میں 2 افراد جاں بحق بھی ہوئے تھے جب کہ 20 پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج تاخیر سے ملنے پر الیکشن کمیشن نے اس حلقے کا نتیجہ روک لیا تھا۔

غفلت اور لاپرواہی کی بنا پر کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر ، آرپی او، ڈی پی او سمیت دو ڈی ایس پیزکو عہدے سے ہی ہٹا دیاگیا۔

این اے 75 پر دوبارہ پولنگ 10 اپریل کو ہوئی جس میں ن لیگ کی نوشین افتخار نے میدان مار لیا تھا۔

مزید خبریں :