24 اکتوبر ، 2012
کراچی…شبانہ شفیق… ڈاؤیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مسعود حمید خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں 22فیصد مرد اور 27فیصد خواتین موٹاپے کے امراض کا شکار ہیں ۔دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب لوگ موٹاپے یا وزن کی زیادتی کا شکار ہیں ۔پاکستان اوبیسٹی سوسائٹی اور دوا ساز ادارے کے اشتراک سے موٹاپے کے عالمی دن کی مناسبت سے بدھ کے روز کراچی پریس کلب میں عباسی شہید اسپتال میں شعبہ امراض قلب کے سربراہ ڈاکٹر عبد الرشید ، معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شبین ناز ،ڈاکٹر زاہد میاں ، ڈاکٹر نعیم الحق اور ڈائٹیشن خدیجہ میثم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر مسعودحمید نے کہا کہ اگر مردوں کی کمر 36انچ سے زائد اور خواتین کی کمر 32انچ سے زائد ہے تو یہ موٹاپے کی نشانی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں شعور کی کمی ہے جس کیوجہ سے مسائل میں اضافہ ہوا ہے ۔انہوں ن ے کہا کہ وزن کی زیادتی بہت سے مہلک امراض کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ روزانہ ورزش کو معمول بنایا جائے اور 5سے 10فیصدوزن میں کمی آپ کی صحت کو بہتر بنا سکتی ہے وزن مٰں کمی کے سبب ذیابطیس میں 58فیصد کمی ، بلڈ پریشر کے خطرات سے چھٹکارہ ، کولیسٹرول میں کمی ،مردوں میں امراض قلب میں مبتلا ہونے کے امکانات 48فیصد اور عورتوں میں 40فیصد تک کمی ، جوڑوں کے درد کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے امکانات میں کمی ہو سکتی ہے اس کے علاوہ بی ایم آئی میں 2پوائنٹس کی کمی سے گھٹنوں کے درد کے مرض کا امکان 50فیصد کم ہو جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ موٹاپے میں مبتلا افراد پھیپھڑوں کے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی سانس پھولنا شروع ہو جاتی ہے ۔ موٹاپے کی شکار خواتین بریسٹاور، بچہ دانی کا کینسر اور مرد حضرات میں مثانے کا کینسر ہو سکتا ہے ۔ پروفیسر عبد الرشید نے کہا کہ موجودہ دور میں کم عمر افراد بھی دل کے امراض کا شکار ہو رہے ہیں جو تشویش ناک امر ہے ۔وزن بڑھنے سے بلڈ پریشر بھی بڑھتا ہے جس سے فالج اور گردوں کے امراض کا خدشہ اور ٹانگوں کی نسیں متاثر ہوتی ہیں اور موٹاپے سے بچاؤ کا واحد حل ورزش ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایسے افراد جو سگریٹ نوشی ترک کرتے ہیں انہیں اپنے وزن پر زیادہ توجہ دینی چاہیے کیونکہ سگریٹ نوشی ترک کرتے وقت وزن بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر شبین ناز نے کہا کہ پاکستان میں 1980 میں موٹاپا منظر عام پر آیا لیکن اب موٹاپے کا مرض پاکستان میں سونامی کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔