10 جنوری ، 2022
مری میں برف باری ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے۔ کبھی کم کبھی زیادہ لیکن جو سانحہ اس بار رونما ہوا اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، اُن کو سن کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔
میں خود مری کا رہنے والا ہوں اور حیران اس بات پر ہوں کہ سب سے زیادہ اموات جس علاقہ (کلڈنہ)میں ہوئیں وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں برف کی صفائی میں دیر ہونی ہی نہیں چاہئے تھی۔ ماضی میں بھی کئی بار بہت زیادہ برف باری ہوئی لیکن شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ 24 گھنٹے نہیں بلکہ 48گھنٹے تک لوگ برف باری کی وجہ سے سڑک پر اپنی گاڑیوں میں پھنس جائیں اور اس دوران برف ہٹانے یا اُن کی مدد کے لیے کوئی آئے ہی نا۔
برف باری کے دوران انتظامیہ کی سب سے اہم ذمہ داری سڑکوں خصوصاً اہم شاہراہوںکو لگاتار مشینیں لگا کر بار بار صاف کرتے رہنا ہوتا ہے تاکہ ٹریفک کو بحال رکھا جائے اور سیاحوں کو اُس تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے، جسے ہم نے اس بار دیکھا اور جس کے نتیجے میں 22کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہو گئے۔ برف باری کے دوران اگر برف کی صفائی میں گھنٹوںکا وقفہ کیاجائے گا تو پھر سڑکوں پر بھی برف کے پہاڑ جمع ہو جائیں گے، گاڑیاں برف میں دب جائیں گی اور یوں ایک بحرانی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔
اوپر سے جب معلوم بھی ہے کہ برف باری رُک نہیں رہی اور گاڑیوں کا رش بڑھتا جا رہا ہے مگرسیاحوں کو مری کی جانب جانے سے اُس وقت روکا گیا جب سانحہ رونما ہو چکا تھا، 22 افراد جان کی بازی ہار چکے تھے۔ گزشتہ روز مجھے پنجاب سے ایک اہم سرکاری افسر نے فون کیا اور اطلاع دی کہ مری میں برف باری کے موسم کے لیے ایک جامع پالیسی (SOPs) موجود ہے لیکن اُس پر پنجاب حکومت نے عمل کرنے کے بارے میں کوئی ایک بھی اعلیٰ سطحی میٹنگ تک نہیں کی۔
اس پالیسی کے مطابق ایک نہیں بلکہ دو دو کنٹرول رومز پہلے سے موجود ہونےچاہئیں تھے، مری کے کئی علاقوں کے ساتھ ساتھ کلڈنہ میں سنو کیمپ ہونا چاہئے تھا، ان کیمپوں میں برف کی صفائی کی مشینری رکھے جانے کی ہدایت تھی تاکہ کوئی بھی اہم شاہراہ برف باری کی وجہ سے بند نہ ہو ۔نو صفحات پر مبنی یہ پالیسی مختلف سرکاری محکموں پر مختلف قسم کی ذمہ داریاں عائد کرتی ہے تاکہ سڑکوں سے وقت پر برف کی صفائی کر دی جائے اور ٹریفک کے سنگین مسائل پیدا نہ ہوں۔
گھنٹوں کے لیے ٹریفک کا جام ہونا کوئی پریشانی کی بات نہیں لیکن کلڈنہ، مری، جھیکا گلی، سنی بنک وغیرہ جیسے علاقے جو سب کے سب چند ایک کلومیٹر کی حدود میں آتے ہیں، ان علاقوں کے اطراف کی سڑکوں کو لگاتار صاف کرنا کوئی بڑا چیلنج نہیں تھا لیکن اگر برف باری کے دوران سڑکوں کوکلیئر کرنے کا کام اس لیے روک دیا جائے کہ جب برفباری رُکے گی تو صفائی کریں گے تو پھر اس سے تو بحرانی صورتِ حال پیدا ہونا ہی تھی اور اس بار ایسا ہی ہوا۔ گزشتہ حکومتوں کے دوران چاہے وہ شہباز شریف کی حکومت ہو یا پرویز الٰہی کی کبھی ایسے حالات پیدا نہیں ہوئے۔
اُن ادوار میں وزرائے اعلیٰ برف باری سے قبل مری کے بارے میں باقاعدہ میٹنگ کرتے تھے، پالیسی کا جائزہ لیتے تھے، مری کے محکموں کو فنڈز جاری کرتے تھے، انتظامیہ کو فعال کیا جاتا تھا لیکن اس بار مری کا اسسٹنٹ کمشنرپولیس، ایک ڈی ایس پی کے ساتھ اکیلا ہی سڑکوں پر برف ہٹانے کی کوشش کرتا دکھائی دیا جبکہ صوبائی حکومت کی وہ دلچسپی نہ تھی جو ہونی چاہئے تھی۔
ویسے بھی جب انتظامیہ کے افسران کو روز رو ز تبدیل کیا جائے گا تو پھر ایسے ہی حالات پیدا ہوں گے۔ بزدار حکومت کے دوران صرف مری میں کوئی دس بارہ اسسٹنٹ کمشنرتبدیل کیے جا چکے ہیں اور یہی حال ہر محکمے کے افسروں کا ہے۔ ایسے میں گورننس کا حال کیسے بہتر ہو سکتا ہے اور یہ وہ نکتہ ہے جس کے بارے میں عمران خان صاحب کو سوچنا بھی چاہئے اور ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہئے۔
جب پورے پاکستان کی توجہ مری کے سانحہ کی جانب تھی تو وزیر اعظم نے کیا کہا، وزیر اطلاعات کیا فرماتے رہے، وزیر اعلیٰ پنجاب کی کیا مصروفیت رہی ؟ یہ بحث ایک طرف لیکن اس سارے معاملہ کی ایک سنجیدہ انکوائری ضرور ہونی چاہئےتاکہ آئندہ ایسا کوئی سانحہ رونما نہ ہو۔مری میں مرنے والوں کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر سیاست ہورہی ہے اور ہوتی بھی رہے گی لیکن حکومت پنجاب کی نا اہلی ثابت ہو چکی اور اس پر پردہ ڈالنے کی بجائے اسے درست کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔