13 جنوری ، 2022
اسلام آباد ہائی کورٹ نے این ڈی ایم اے کو سانحہ مری کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ وزیراعظم اجلاس بلا کر ذمہ داروں کا تعین کریں۔
سانحہ مری کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔
مری کے رہائشی حماد عباسی نے دانش اشراق عباسی ایڈووکیٹ کے ذریعے درخواست دائر کی جس میں مؤقف اختیار کیا کہ 7 جنوری کو مری گیا، جب ٹول پلازہ سے سیاح مری جا رہے تھے تو کسی نے ان کو نہیں روکا اور نہ ہی خدشے سے آگاہ کیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ تو سیاح ہر سال اسی طرح مری جاتے ہیں۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ کو روسٹرم پر بلا لیا اور انہیں این ڈی ایم اے سے متعلقہ قوانین پڑھنے کی ہدایت کی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اگر اس ڈسٹرکٹ کے لیے کوئی مینجمنٹ پلان نہیں تھا تو کیوں نہیں تھا؟ اتنی بڑی باڈی میں سارے متعلقہ لوگ موجود ہیں، اپوزیشن بھی ہے، کیا اتنی بڑی باڈی کی کبھی بھی کوئی میٹنگ ہوئی ہے؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں اس حوالے سے ہدایات لے کر ہی عدالت کو آگاہ کر سکتا ہوں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ کیا این ڈی ایم اے کی اس حوالے سے کبھی میٹنگ ہوئی، اس حوالے سے تو باقاعدہ مینجمنٹ پلان ہونا چاہیے تھا، اگر کمیشن کی میٹنگ نہیں ہوئی تو کیوں نہیں ہوئی۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 22 لوگوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ قانون میں این ڈی ایم اے کسی سانحے سے نمٹنے کی تیاری اور رسپانس کا ذمہ دار ہے۔
این ڈی ایم اے کے ممبر ڈیزاسٹر منیجمنٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کل کو خدا نخواستہ زلزلہ آئے تو آپ نے کہنا ہے کہ ہماری ذمہ داری نہیں، ان 22 لوگوں کی اموات کا ذمہ دار کون ہے؟
عدالت کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے 2010 میں ایک قانون بنایا جس پر عمل درآمد ہونا تھا۔
عدالت نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ قانون کی متعلقہ شقیں پڑھنے کی ہدایت کی اور کہا کہ درخواست گزار کی شکایت ہے کہ کوئی تیاری نہیں تھی ورنہ 22 افراد کی جانیں نہ جاتیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی آج تک کبھی میٹنگ ہوئی ہے؟
ممبر این ڈی ایم اے نے عدالت کو بتایا کہ 21 فروری 2013 کو ایک میٹنگ ہوئی، دوسری میٹنگ 28 مارچ 2018 کو ہوئی۔
عدالت نے پوچھا کہ کسی لیڈر آف دی اپوزیشن نے آپ کو درخواست کی کہ کمیشن کی میٹنگ بلائیں؟ جس پر ممبر نے بتایا کہ کسی اپوزیشن لیڈر نے ہمیں میٹنگ بلانے کا نہیں کہا۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اس سے زیادہ پاورفل باڈی کوئی اور ہو سکتی ہے؟ کبھی ڈی جی این ڈی ایم اے نے حکومت کو لکھا کہ میٹنگ بلائیں وگرنہ کل کوئی آفت آئی تو ذمہ داری ہم پر آئے گی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ممبر این ڈی ایم اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ناکام ہوئے ہیں، آپ کی ذمہ داری تھی کہ میٹنگ بلاتے، آپ کی ذمہ داری تھی کہ اس علاقے کے لیے نیشنل مینجمنٹ پلان دیتے۔
عدالت نے ممبر این ڈی ایم اے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ سمجھ نہیں رہے، آپ کی اتھارٹی نے قانون پر عمل کرانا تھا،کسی اور پر الزام نہ لگائیں، اتنا زبردست قانون ہے کہ ہر ضلع کے ذمہ داروں تک کیلئے ذمہ داری ڈالتا ہے، آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس باڈی کی میٹنگز ہوں اور قانون پرعمل درآمد ہو۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پوچھا کہ صوبائی باڈیز کے کبھی میٹنگز ہوئی ہیں؟ اگر اس قانون پر عمل ہوا ہوتا تو ایک شہری کی بھی ہلاکت نہ ہوتی۔
عدالت نے پوچھا کہ کیا ڈسٹرکٹ راولپنڈی کے لیے مری کے حوالے سے 2010 سے کوئی ڈسٹرکٹ پلان ہے؟ 2010 میں قانون بنا، آپ 2021 میں عدالت کو بتا رہے ہیں کہ ہمیں چیک کرنا ہے، اس کیس میں تو کوئی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں، اس قانون پر این ڈی ایم اے نے عمل کرانا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اگر ڈسٹرکٹ پلان ہوتا تو یہ نہ ہوتا جو کچھ ہوا، اس میں تو انکوائری کی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا باہر جاکر تقریریں سب کرتے ہیں، قانون پر عملدرآمد کوئی نہیں کرتا، سب لگے ہوئے ہیں مری کے لوگ اچھے نہیں، ان کا کیا قصور ہے؟ بلاوجہ سب مری کے لوگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ممبر این ڈی ایم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ان اموات کے ذمہ دار آپ ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ عدالت اس پر فیصلہ دے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس قانون میں جتنے لوگ ہیں وہ سب اور پوری ریاست ذمہ دار ہے، اگر نیشنل کمیشن کی میٹنگ2018 کے بعد نہیں ہوئی تو ذمہ داری آپ پر ہی عائد ہوتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم کمیشن ذمہ داروں کا تعین کرکے رپورٹ عدالت میں جمع کرائے، یہ بہت اہم معاملہ ہے، آئندہ جمعے تک رپورٹ جمع کرائیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ممبر کو آئندہ ہفتے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کا اجلاس بلانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اجلاس بلا کر ذمہ داروں کا تعین کریں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طیب شاہ کی زیادہ وقت دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی اہم اور فوری نوعیت کا معاملہ ہے، اس دوران کوئی اور سانحہ ہوگیا تو ذمہ دار کون ہوگا، ذمہ داروں کا تعین کرکے آئندہ جمعہ تک عدالت کو آگاہ کریں۔
عدالت نے سانحہ مری پر تحقیقات کی سماعت آئندہ جمعے تک ملتوی کر دی۔