24 جنوری ، 2022
صدارتی نظام کی چاہت میں گھرے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل کا واحد حل یہی ہے اور ہم اگرپارلیمانی نظام کو بدل کر صدارتی نظام میں تبدیل کر لیں گے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ اصل میں ہم اپنی خامیوں پر نظر ڈالنا ہی نہیں چاہتے ورنہ مسئلہ نظام کا نہیں بلکہ ہمارے اپنے رویوں اور اعمال کا ہے۔ ہم میرٹ کو نہیں مانتے، ہم آئین کی بالادستی اور قانون کی عملداری پر یقین نہیں رکھتے، ہم اداروں کو بنانے اور اُنہیں مضبوط کرنے کے قائل نہیں۔
کوئی بھی ہو چاہے عمران خان، نواز شریف یا آصف علی زرداری سب نے بیوروکریسی کو سیاست زدہ کیا اور سرکاری افسروں کو اپنا ذاتی غلام سمجھا، افسروں کو ایمانداری اور اُن کی قابلیت کی بجائے خوشامد کی بنیاد پر عہدے دیئے۔
نیب ہو، ایف آئی ہویا ایف بی آر، کسی بھی ادارے کا نام لےلیں سب کو اپنی من مرضی سے چلانا اور اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنا ہی ہماری سیاست اور حکمرانی کا اہم جزورہا،چاہے حکومت کوئی بھی ہو، کسی کی بھی ہو، پارلیمنٹ کو یہاں ربر سٹیمپ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کابینہ بھی حقیقت میں کچن کیبنٹ کے تابع ہوتی ہے۔
قوانین، قاعدوں اور پالیسیوں کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا ہمارا وتیرہ بن چکا۔ کیا یہ سب کچھ بلکہ اور بہت کچھ جو ہمارے ملک کی تنزلی کی وجہ ہے ، یہ سب کچھ صدارتی نظام کے آنے سے ختم ہو جائے گا؟کیا اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں عمل دخل کی وجہ بھی پارلیمانی نظامِ حکومت ہے؟صدارتی نظام سے کیا اسٹیبلشمنٹ غیر سیاسی ہو جائے گی؟
کیا عدالتی نظام درست ہو جائے گا؟سیاستدان، حکمران، وزیر، مشیر، افسر شاہی سب ایماندار ہو جائیں گے، احتساب انصاف پر مبنی ہو جائے گا،رشوت اور سفارش کی بیماری جو ہمیں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے کیا ختم ہو جائے گی؟ ایساکچھ نہیں ہونے والا۔ اصل مرض نظام میں نہیں، ہم میں ہے۔ ہم اگراپنے آپ کو ٹھیک نہیں کرتے تو کوئی بھی نظام لے آئیں بہتری نہیں آ سکتی۔
دنیا بھر کو دیکھیں، ترقی کرتے ملکوں پر نظر دوڑائیں تو پتا لگے گا کہ کامیابی کا تعلق کسی ایک نظام سے نہیں بلکہ بہترین طرزِ حکمرانی سے ہے۔ ہم امریکہ کو دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ وہاں کی ترقی و کامیابی کا راز صدارتی نظام میں ہے لیکن جاپان میں تو صدارتی نظام نہیں، وہاں تو حکومتیں بھی آئے دن بدلتی رہتی ہیں لیکن سسٹمز ایسے بنا دیے گئے اور بیوروکریسی اتنی مستحکم اور میرٹ کے مطابق کام کرتی ہے کہ عوام کو بہترین طرز حکمرانی دستیاب ، سب سہولتیں میسر ہیں۔
یورپ کو دیکھیں، سنگاپور کی مثال سب کے سامنے ہے، دبئی کو دیکھ لیں اور چین کی ترقی پر نظر دوڑا لیں کسی بھی ملک کی ترقی کا راز کوئی ایک مخصوص نظامِ حکومت نہیں بلکہ بہترین طرزِ حکمرانی یعنی گڈ گورننس کے وہ اصول ہیں جن سے ہم ہمیشہ ناواقف رہنا چاہتے ہیں، جن کو ہم اپنی تقریروں اور الیکشن منشور میں تو شامل کرنا چاہتے ہیں لیکن اُن پر عمل نہیں کرتے۔
ہم مثالیں دیتے ہیں صدر ایوب کے مارشل لاء کی اور اُسے صدارتی نظام کے حوالے سے یاد کر کے کہتے ہیں کہ پاکستان کیسے ترقی کر رہا تھا؟ حقیقت میں ایوب خان کے دور کی ترقی کا تعلق پاکستان کی بیوروکریسی سے تھا جو عمومی طور پر غیر سیاسی تھی اور اسی وجہ سے بہتر پرفارم کر رہی تھی لیکن ہم نے بیوروکریسی کو سیاست زدہ کر کے تباہ کر دیا، میرٹ کی بجائے ’’میرا بندہ میرا وفادار‘‘ کی بنیاد پر تعیناتیاں کیں اور آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہماری انتظامی مشینری مکمل طور پر نااہل ہو چکی ہے اور Deliver کرنے کے قابل نہیں رہی۔
مری سانحہ پر انکوائری رپورٹ پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ جیسے اس ملک میں حکومت نام کی کوئی شے ہی نہیں۔ اس میں پارلیمانی نظام کا کیا قصور؟ اگر موجودہ حکومت اور موجودہ وزیر اعظم کی ہی مثال لے لیں تو ذرا سوچیں وہ بہترین طرز حکومت کے متعلق ماضی میں کیا کیا باتیں کیاکرتے تھے، کیا کیا وعدے اُنہوں نے نہیں کیے، اصلاحات اصلاحات کے نعرے لگائے، الیکشن منشور میں وعدے بھی کیے لیکن عمل زیرو بلکہ الٹا ہمارے حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئے۔ افسرِ شاہی جو کسی بھی نظامِ حکومت میں ملک کو چلانے کے لیے کلیدی کردار کی حامل ہوتی ہے اُس کو خان صاحب کی حکومت نے مزید برباد کر دیا۔
کیا صدارتی نظام کے آنے سے عمران خان، نواز شریف، آصف علی زرداری بدل جائیں گے؟؟ نظام نہیں رویے بدلو، نظام نہیں اپنے آپ کو بدلو۔ نظام بدل بھی گیا لیکن خود کو نہ بدلا تو کچھ نہیں بدلنے والا۔ اس نکتہ کو سمجھیں، سب کچھ سمجھ آ جائے گا
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔