ہر طرف سکون ڈاٹ کام

انسان بہتر سے بہترین کی خواہش رکھتا ہے لیکن جس ملک میں ہم زندگی گزار رہے ہیں یہاں بد سے بدتر اور بدترین سے ہی پالا پڑ رہا ہے۔ سینیٹ میں اسٹیٹ بینک کی خود مختاری ”گروی“ رکھنے کے ترمیمی بل پر پیرو مرشد نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر عوام کو جو دھوبی پٹکا مارا ہے یہ دن، تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 

کیسے کیسے لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑا ہے، آئے روز نئے سے نیا ڈرامہ رچاتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ نئی مشکل آن پڑی ہے کہ پہلے جو لوگ پارلیمنٹ میں گلاپھاڑ پھاڑ کر یہ نعرے لگاتے تھے کہ آئی ایم ایف کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے، اب آئی ایم ایف سے معاہدے کی بنیاد پر پیش کیے جانے والے منی بجٹ کی دستاویزات اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ پر اچھالتے رہے۔ یہ کبھی گھیراؤ، جلاؤ کی دھمکیاں دے کر عوام کو جوش دلاتے تھے۔ اور سینہ ٹھونک کر یہ کہتے تھے کہ پارلیمان سپریم ہے۔

 اس میں کہا گیا ایک ایک لفظ قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کوئی ان معزز اراکینِ پارلیمنٹ کی شان میں گستاخی کرے تو ان کا استحقاق مجروح ہوتا ہے۔ اگر ان اراکین کا استحقاق اتنا ہی محترم ہے تو عوام جس نے انہیں منتخب کرکے صرف اس لیے پارلیمنٹ تک پہنچایا کہ وہ قومی مفاد پر سودے بازی نہیں کریں گے تو پھر سینیٹ میں ملکی مفاد کے خلاف جو سودے بازی کی گئی ہے، اس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟ 

سر کھپانے کی ضرورت نہیں، یہ جمہوریت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے تو بہتر ہے۔ اس جنازے کو کندھا دینے کے لیے کوئی بھی پیچھے نہیں رہا، کیا منظر ہے۔ نماز جنازہ کی امامت بلاول بھٹو کے مقرر کردہ پیپلز پارٹی کے پیش امام یوسف رضا گیلانی کررہے ہیں۔ پہلی صفوں میں ن لیگ کے مشاہد حسین سید کھڑے ہیں جنہیں ”کورونا“ بھی عین اسی وقت ہونا تھا جب قوم کو ان کے ایک ووٹ کی اشد ضرورت تھی۔ بڑے مولانا صاحب کے ایک معصوم چہیتے سینیٹر اتنے بھولے بادشاہ نکلے کہ ترمیمی بل پر ووٹنگ کے دوران ایوان سے ہی اٹھ کر چلے گئے۔

 بڑے مولانا صاحب نے ایک ایسے شخص کو سینیٹر بنا دیا جسے سینیٹ کے قواعد و ضوابط اور ووٹنگ کے طریق کار تک کا علم نہیں۔نئے اور پرانے پاکستان کے تمام دعوے دار نان نفقہ کی خاطر بظاہر دست و گریباں ہیں، آباؤ اجداد کے گدی نشین شاہ محمود قریشی نے امام جنازہ جمہوریت سید یوسف رضا گیلانی سےسرعام اگلے پچھلے حساب کتاب چکتا کردیے۔ اب تو ماتم صرف اس بات کا کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن نے سینیٹ میں واضح اکثریت کے باوجود مرشد سرکار کے سامنے باآسانی شکست کیوں تسلیم کرلی اور اس کا سب سے زیادہ نقصان کس پارٹی کو ہوا اور فائدہ کون اٹھا گیا تو خاطر جمع رکھیں کہ سید یوسف رضا گیلانی نے پہلا احسان تو آصف زرداری اور بلاول بھٹو پر اپنی وفاداری نبھا کر یہ کیا ہے کہ انہیں فوری طور پر کسی بڑے امتحان سے بچا لیا، دوسرا قوم پر یہ کرم فرمایا ہے کہ یہ جو صفحہ الٹنے، پلٹنے، پھٹنے کی کہانی گزشتہ ساڑھے تین سال سے پڑھائی، سنائی جارہی تھی وہ محض افسانہ نکلی اور اگلے ڈیڑھ سال کے لیے قوم کو مرشد کی پوری کتاب ازبر کرنا ہوگی۔ 

اس ناول کا تیسرا اور آخری سسپنس یعنی کردار میاں نواز شریف کی آمد، اپنے اختتام کو پہنچا، اب اس کہانی میں چھوٹے میاں کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ اہمیت اختیار کرتا چلا جائے گا۔ جہاں تک بڑے مولانا صاحب کی بات ہے تو بڑی خوب صورتی کے ساتھ اپنا بھرپور جان دار کردار بدستور نبھا تے رہیں گے، دباؤ بھی ڈالیں گے اور انہیں خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں حصہ بقدر جثہ بھی بوقت ضرورت ملتا رہے گا۔

 بلاول بھٹو نے ترمیمی بل پر خاموش حمایت کرکے بظاہر ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔ ایک طرف انہوں نے گیٹ نمبر 4سے باہر ہی اپنے معاملات کو بہتر انداز میں ڈیل کیا ہے تو دوسری طرف ن لیگ کی بڑھتی ہوئی عوامی طاقت کو سیاسی طاقت سے شدید نقصان پہنچا کر مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں اپنے کردار کو نمایاں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ پیپلزپارٹی کے 27فروری کے لانگ مارچ سے مرشد سرکار کو کوئی خطرہ ہے نہ ہی کسی اور کو، اسے پنجاب میں بلاول بھٹو کی باقاعدہ تقریب رونمائی ہی سمجھا جائے تو بہتر ہے جہاں تک بڑے مولانا صاحب کے 23مارچ کو اسلام آباد لانگ مارچ کا تعلق ہے تو یہ ن لیگ کا سب سے بڑا امتحان ہوگا۔ 

پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں شامل باجہ کے طور پر شریک ہوں گی۔ بڑوں نے مل بیٹھ کر تمام معاملات احسن انداز میں طے کر لیے ہیں کوئی کسی کی حدود میں داخل نہیں ہوگا۔ چادر چاردیواری کے تقدس کو پامال نہیں کیا جائے گا۔ جیلیں ”سیاسی پرندوں“ سے آزاد رہیں گی۔ احتساب پر شورشرابہ اسی طرح جاری رکھا جائے گا۔ مرشد بڑوں کی دعاؤں، کرم نوازیوں کے سائے میں چین کے تاریخی دورے پر روانہ ہوچکے ہیں۔ روانگی سے قبل بڑی کاروباری، صنعتی شخصیات کے ساتھ ایک بڑی ملاقات حوصلہ افزا قرار دی جارہی ہے۔

 تمام بڑے کاروباری اسٹیک ہولڈرز صرف اس بات کا اطمینان چاہتے تھے کہ ملک میں احتساب کے نام پر ہونے والا کھلواڑ بند کیا جائے تو معیشت کا پہیہ چلے۔ بڑوں نے سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ معیشت کے تمام اہم پہیوں کو اس بات کا اطمینان دلا دیا ہے کہ ماضی کے ساڑھے تین برسوں کو ایک بھیانک خواب سمجھیں۔ کچھ ہم نے سیکھا ہے کچھ آپ بھی عقل کریں، اب بات اس سے آگے نہ بڑھائیں، اطمینان سے پاکستان کو مضبوط بنائیں۔ فی الحال عوام یہ گانا انجوائے کریں۔

”میرے پیا گئے رنگون‘ کیا ہے وہاں سے ٹیلی فون“

ہر طرف سکون ڈاٹ کام۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔