07 فروری ، 2022
صوبہ پنجاب کے ہائیر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے حوالہ سے گزشتہ ہفتے ایک خبر آئی جس میں کچھ ایسی بات کی گئی تھی کہ صوبے میں پرائیویٹ کالجزاور یونیورسٹیوں کو بی ایس کے چار سالہ پروگرامز کے لیے این او سی جاری کرنے کے لیے ایک شق یہ بھی موجود ہے کہ لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے الگ الگ یعنی علیحدہ کلاس رومز یا بلاکس کا انتظام کیا جائے۔
اس بارے میں تفصیلات یا ہائیر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کوئی explanation تو سامنے نہ آئی لیکن چند ایک ٹی وی چینلز کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا جانے لگا کہ کیا پنجاب حکومت مخلوط تعلیمی نظام پر پابندی لگانے جا رہی ہے؟ کتنا اچھا ہو کہ ایسا ہی ہو لیکن میڈیا میں ایسی خبروں کو سکینڈلائز کیا جاتا ہے اور اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے جیسے کوئی جرم کیا جا رہا ہو۔ ہمارا دین جو مرضی کہتا ہو، ہمارے آئین میں جو چاہے لکھا ہو، مخلوط تعلیمی نظام اور اس کے نقصانات کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں، چاہے لاکھوں بچیاں اس لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ رہی ہوں کہ بہت سے والدین مخلوط تعلیمی نظام میں اپنی بچیوں کو پڑھانے کے لیے تیار نہیں، کچھ بھی ہو پاکستانی میڈیا کا ایک چھوٹا لیکن طاقت ور طبقہ ہم پر ،ہمارے معاشرے پر، ہمارے گھروں میں اُس مغربی کلچر کو زبردستی ٹھونسنے کی کوشش میں ہے جس کانتیجہ بے حیائی اور بے راہ روی ہے، جو مرد وعورت میں دوستی، بغیر شادی ایک دوسرے کے ساتھ تعلق اور ساتھ رہنے تک کو بُرا نہیں جانتا بلکہ اسے ترقی اور عورت کی آزادی سے تشبیہ دیتا ہے۔
تعلیمی اداروں کا مقصد بچوں بچیوں کی تعلیم اور اپنی دینی اور معاشرتی اقدار کے مطابق تربیت ہی اولین ترجیح ہونی چاہیے لیکن یہاں تو تعلیمی اداروں میں ایک ایسے کلچر کو پروموٹ کیا جا رہا ہے، جہاں پڑھائی لکھائی اور تربیت کے برعکس فیشن، ڈانس، کھلے عام لڑکے لڑکیوں میں دوستیاں اور یہاں تک کہ سب کے سامنے ایک دوسرے سےبغلگیرہونا اور فلمی انداز میں پروپوز کرنا سب کچھ نارمل ہوتا جا رہا ہے۔پڑھائی پیچھے رہ گئی، تربیت کی کسی کو فکر ہی نہیں اور کردار سازی کی بجائے اخلاقی گراوٹ کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ یونیورسٹیوں، کالجوں اور انگلش میڈیم سکولوں تک میں نشہ عام کیا، خطرناک حد تک پھیلتا جا رہا ہے جس کا شکار لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہو رہے ہیں۔ والدین اور عام لوگوں کو تو اندازہ ہی نہیں کہ تعلیمی اداروں کا ماحول کس قدر خراب ہوتا جا رہا ہے اور والدین کی یہی بے خبری اُن کی اولاد کے بگاڑ کی وجہ بن رہی ہے۔
حکومتیں، حکمران، سیاستدان اور دوسرے اہم ادارے ان معاملات میں میڈیا سے اتنا خائف ہیں کہ اچھے سے اچھے کام کا بھی دفاع نہیں کرتے۔ یعنی اگر کوئی حکومت، کوئی سکول، کالج یا یونیورسٹی انتظامیہ یہ حکم جاری کر دے کہ کیمپس میں لڑکیوں اور لڑکوں کو مہذب لباس پہننا ہوگا اور اگر اس میں، بچیوں کو شلوار قمیض اور سر ڈھانپنے کا کہہ دیا جائے تو اس پر میڈیا کا مخصوص طبقہ برہم ہو جاتا ہے، ایک مہم چلا دی جاتی ہے اور ایسا تاثر دیا جاتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا ظلم کر دیا گیا ہو، خواتین کے حقوق اور آزادی نسواں کے کسی نام نہاد چیمپیئن کوبلا کر متعلقہ حکومت یا تعلیمی ادارےکی انتظامیہ وغیرہ کو لعن طعن کیا جاتا ہے۔
اور ایسے میں اچھے کام کا حکم دینے والے بھاگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جبکہ نہ اسلام کا نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے، نہ ہی آئین و قانون اور ہماری معاشرتی اقد ار کی بات کی جاتی ہے۔ پاکستانی طلباء کے لیے گویا ایک ہی چوائس، اُن کے سامنے، رکھی جا رہی ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں اُس ماحول کو اپنائیں جس کا تعلق مغربی کلچر سے تو ضرور ہے لیکن جو ہماری اپنی دینی اور معاشرتی اقدار کے خلاف ہے۔ یعنی اگر سمجھیں تو اہمیت تعلیم کی نہیں بلکہ اُس کلچر کے فروغ کی ہے جو ہماری تباہی کا ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن کسی بھی طور ہمارے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔
اس بات پر سوچا تک نہیں جا رہا کہ کہیں مخلوط تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں میں مغربی کلچر کے فروغ سے ہزاروں لاکھوں بچیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم تو نہیں ہو رہیں۔ مقصد تعلیم اور تربیت ہونا چاہیے لیکن یہاں تو میڈیا کے ذریعے معاشرےکے ساتھ ایک گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔