Time 21 فروری ، 2022
بلاگ

مجبور وزیراعظم اور عورت مارچ

مذہبی امور کے وفاقی وزیر صاحبزادہ نور الحق قادری نے حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں 8 مارچ کو حجاب ڈے منانے کی تجویز دیتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ عورت مارچ کے نام پر اسلامی شعائر، معاشرتی اقدار، حیا و پاکدامنی، پردہ و حجاب کا تمسخر اُڑانے کی اجازت نہ دی جائے۔

 وفاقی وزیر نے خط میں یہ بھی لکھا کہ بظاہر تو عورت مارچ کو حقوقِ نسواں کے تحفظ کا عنوان دیا گیا ہے لیکن اس مارچ میں جس طرح کے بینرز، پلے کارڈز اور نعروں کا اظہار کیا جاتا ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید مسئلہ حقوقِ نسواں سے زیادہ اسلام کی طرف سے دیے گئے نظام معاشرت کا ہے۔ 

قادری صاحب نے وزیراعظم کو یاد دلایا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں کی اکثریت اصولی طور پر اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنے کی خواہشمند ہے۔ اُنہوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ آنے والے یوم خواتین کے دن کسی بھی طبقے کو عورت مارچ یا کسی بھی دوسرے عنوان سے دینی و معاشرتی اقدار پر کیچڑ اچھالنے یا ان کا تمسخر اڑانے کی ہر گز اجازت نہ دی جائے کیوں کہ ایسا کرنا مسلمانانِ پاکستان کے لیے سخت اذیت، تکلیف اور تشویش کا باعث بنتا ہے۔ 

نجانے وزیراعظم اپنے مذہبی امور کے وزیر کے اس مطالبہ پر کیا حکم صادر کریں گے لیکن اس سے پہلے کہ وزیر اعظم بولتے ڈاکٹر شیریں مزاری اور فواد چوہدری توقع کے مطابق ـ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ والوں کے حق میں اور وزیر مذہبی امور کی تجویز کے خلاف بول پڑے، میڈیا کا ایک طبقہ بھی عورت مارچ کی حمایت میں سامنے آ چکا۔ 

مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ وزیر اعظم خود بھی اُس بے ہودگی سے بہت نالاں ہیں جس کا اظہار گزشتہ چند برس کے دوران عورت مارچ کے نام پر کیا گیا۔وزیر اعظم یہ بھی جانتے ہیں کہ اسلامی شعائر اور معاشرتی اقدار کے خلاف عورت مارچ میں کیاکیا‘کیا گیا اور اس کے بارے میں عوام میں کیا رائے پائی جاتی ہے لیکن مجھے توقع نہیں کہ وزیر اعظم اپنی اس سوچ کے باوجود عورت مارچ پر پابندی لگانے کا کوئی فیصلہ کر پائیں گے اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان معاملات پر وہ خود کو اکیلا محسوس کرتے ہیں، اُن کے اردگرد افراد بشمول اُن کے کئی وزرا، وزیر اعظم کی فحاشی و عریانیت کے خلاف اور پردہ کے حق میں سوچ کے مخالف ہیں اور اسی مخالفت کی وجہ سے عمران خان ان معاملات پر خود کو لبرل طبقے کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ 

اسلامی سوچ کے حامی افراد سے اپنی ملاقاتوں میں خان صاحب کئی بار کہہ چکے کہ ان معاملات میں وہ اکیلے ہیں، اُن کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں اور اوپر سے میڈیا اور بعض ٹی وی چینلز لبرل طبقے کے ہاتھوں خوب استعمال ہو رہے ہیں۔ میری رائے میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی طبقہ کو، چاہے وہ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، ہماری دینی اور معاشرتی اقدار کا مذاق اڑانے اور اُن کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

 قانون اور آئین کے مطابق کسی بھی طبقہ کو اجازت ہے کہ وہ احتجاج کرے، اپنے مطالبات کے حق میں پرامن طریقہ سے مارچ کرے لیکن ایسا نہیں ہو سکتاکہ کوئی بے شرمی و بے ہودگی کے فروغ، ہم جنس پرستی کے حق میں، بغیر شادی مرد اور عورت کے درمیان تعلق رکھنے اور ساتھ رہنے، میرا جسم میری مرضی کے نام پر خاندانی نظام کو تباہ کرنے جیسے ایجنڈے کو چلائے اور اس پر ریاست خاموش رہے۔ 

حد تو یہ ہے کہ ماضی میں ان مارچوں میں ایسے پلے کارڈز بھی لہرائے گئے جن سے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ یہ دراصل ایسی شرانگیزی ہے، جس کی ایک ریاست کیسے اجازت دے سکتی ہے؟ اس لیے بہتر ہو گا کہ حکومت عورت مارچ کے منتظمین سے یہ یقین دہانی لے کہ آئندہ اُن کے مارچ میں کوئی بھی بے ہودگی، بے شرمی اور دینی شعائر کا مذاق اُڑانے کی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا، اس لیے مارچ کے نعروں، پلے کارڈز، بینروں میں جو کچھ کہا جائے وہ آئین و قانون کے مطابق ہو اور ان میں کسی طور پر بھی ہمارے اسلامی و معاشرتی شعائر کا تمسخر اڑانے کا اشارہ تک موجود نہ ہو۔ یہ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان معاملات میں ریاست بے پروا نہیں ہو سکتی کیوں کہ بے پروائی سے انتشار کے پھیلنے اور تشدد کا خطرہ پیدا ہوتا ہے جو کسی کے حق میں بھی نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔