28 فروری ، 2022
دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی سفارت خانوں کا اگر پرفارمنس آڈٹ کیا جائے، یہ جاننے کے لیے کہ وہ پاکستان اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی کیا خدمت کر رہے ہیں تو یقین جانیں رزلٹ اگر زیرو نہ بھی آیا تو پانچ چھ سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔
یوکرین پر روسی حملے کے بعد وہاں مقیم پاکستانی طلبہ کی مدد کے لیے آہ وبکا سن کر اور یہ جان کر کہ اس وقت ایمرجنسی ہے اور پاکستانی میڈیا کے شور مچانے کے باوجود یوکرین میں موجود پاکستانی ایمبیسی کے بابو سست روی اور کاہلی کا ہی شکار رہیں۔ جس طالب علم سے بات کریں وہی شکایت کر رہا تھا کہ پاکستانی ایمبیسی اُن کی کوئی مدد نہیں کر رہی۔
ایمبیسی کی اس سردمہری پر جیسے ہی پاکستانی طلبہ پاکستان پہنچ جائیں، سفارت خانے کے تمام افسران کو معطل کر کے واپس پاکستان بلا لینا چاہیے تاکہ دنیا بھر میں پھیلے ہمارے دوسرے سفارت خانوں کو کوئی سبق حاصل ہو۔ میں نے امریکا، برطانیہ، یورپ، جاپان، سعودی عرب، ترکی، عرب امارات اور دوسرے ممالک جہاں مجھے جانے کا اتفا ق ہوا، پاکستانیوں سے ہمیشہ اپنے سفارت خانوں اور سفارت کاروں کے بارے میں شکایات ہی سنیں۔
بعض سفارت خانوں میں بھی جانے کا اتفاق ہوا جہاں کا ماحول ہمیشہ وہی پایا جو عموماً پاکستانی محکموں کا ہوتا ہے اور جہاں عوامی شکایات کو سننے والا کوئی نہیں ہوتا اور ایمبیسی میں آنے والوں یا رابطہ کرنے والوں سے ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے جیسے اُن پر احسان کیا جا رہا ہو۔ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی عموماً یہ شکایت کرتے ہیں کہ پاکستانی ایمبیسی کا عملہ اُن سے بدتمیزی سے پیش آتا ہے، کوئی کام نہیں کرتا اور سب بابو اپنی افسری کے زعم میں ہی رہتے ہیں۔
بیرون ملک تعیناتی کو فارن آفس کے بابو پیسہ کمانے، سیر سپاٹے، عیاشی کرنے اور اپنے بچوں کے لیے دوسرے ممالک کی شہریت حاصل کرنے کے سنہری موقع کے طور پر لیتے ہیں۔
دوسرے ممالک کے سفارت کار اپنے ممالک کے لیے میزبان ممالک سے کاروبار اور پیسہ لانے کے لیے وہاں کی حکومتوں اور کاروباری کمپنیوں سے ملتے ہیں لیکن ہماری ایمبیسیوں کے بابو مغربی انداز میں پارٹیاں کر کے انجوائے کرتے ہیں، اپنے دفتروں سے نکل کر کاروباری طبقے سے ملنا اپنے لیے توہین سمجھتے ہیں، بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کی تو وہ شکلیں ہی نہیں دیکھنا چاہتے۔ بیرون ملک پاکستانی ایمبیسیوں میں سفارت کاروں اور دوسرے عملے کی تعیناتی اکثر و بیشتر سفارش اور اقربا پروری کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
فارن پوسٹنگ کو خدمت کی بجائے پیسہ کمانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ کبھی سفارت کاروں سے پوچھا نہیں جاتا کہ اُنہوں نے پاکستان کیلئے اور بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کے لیے کیا کیا؟ ہماری ایمبیسیوں کا پرفارمنس آڈٹ نہیں کیا جاتا؟ یہ بھی مشاہدے میں آیا کہ اپنے اصل کام کی بجائے ہمارے سفارت کار بیرونِ ملک دوروں پر گئے پاکستانی حکمرانوں، اشرافیہ، وزیروں مشیروں، ممبران پارلیمنٹ، سرکاری افسران کے پروٹوکول اور خدمت میں ہی لگے رہتے ہیں اور اسی بنیاد پر اُن کی کارکردگی کو جانچا جاتا ہے۔
یہاں تو ہر حکومت کے دوران اپنے چہیتوں کو انعام کے طور پر بیرون ملک سٖفیر مقرر کرنے کا بھی رواج ہے چاہے یہ چہیتے سفارت کاری کی الف ب بھی نہ جانتے ہوں۔ اسی طرح ریٹائرڈ جرنیلوں کے لیے ایک کوٹہ رکھا جاتا ہے اور اس کا مقصد بھی صرف تعینات ہونے والے کو انعام دینا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی ایسا نظام نہیں جس کے ذریعے بیرون ملک پاکستانی ایمبیسیوں کے کام اور کارکردگی کو Regular بنیادوں پر مانیٹر کیا جائے۔
پاکستان جیسا غریب ملک ان سفارخانوں اور اپنے سفارتی عملے پر سالانہ کھربوں روپے خرچ کرتا ہے اور اس کے باوجود اگر یہ نظام بیرون ملک پاکستانیوں کی مشکل وقت میں مدد اور وہاں مقیم پاکستانیوں کی خدمت نہیں کر سکتا تو پھر ان سفارت خانوں کی کیا ضرورت ہے؟
اگر سفارت خانوں کو صرف اس لیے قائم رکھا جائے کہ ہمارے بابوؤں کو غیر ملکی پوسٹنگز ملتی رہیں، وہ پیسہ بناتے رہیں،اُن کے بچے باہر پڑھ لیں، وہاں کی شہریت حاصل کرلیں اور بیرون ملک دورے کرنے والی ہماری اشرافیہ کو یہ بابو قوم کے پیسے سے وہاں بہترین پروٹوکول دیتے رہیں تو ایسی صورت میں تو بڑے گھاٹے کا سودا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔