پاکستان

کراچی کے زخم کون دیکھے گا؟

حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس معاملے میں اپنی کارکردگی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل
حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس معاملے میں اپنی کارکردگی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

شہر قائد میں ایک اور شہری عمران کو بیوی اور بچوں کے سامنے گاڑی میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا، اس قتل کی وجوہات کا اب تک پتہ نہیں چل سکا تاہم مقتول کی اہلیہ اپنے ہواس کھو بیٹھی ہے۔

کراچی میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور موجودہ حالات کے تناظر میں مستقبل قریب میں ایسے واقعات رکنے کی کوئی امید بھی نظر نہیں آتی۔

کراچی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق 7500 اسٹریٹ کرمنلز شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی صدارت میں گزشتہ دنوں امن وامان سے متعلق اجلاس میں پولیس چیف نے یہ انکشاف کیا کہ شہر میں 7500 ایسے اسٹریٹ کرمنلز ہیں جو بار بار جرائم کرکے فرار ہوجاتے ہیں یا گرفتاری کے بعد ضمانت پر شہر میں موجود ہیں۔

یہ وہ ریکارڈ ہے جو پولیس نے تیار کیا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو آج تک ریکارڈ پر ہی نہ آ سکے ان کی تعداد کیا ہو گی، ان وارداتوں کے بارے میں کیا کہیں گے جو رپورٹ ہی نہیں ہوتیں اور ان کرمنلز کے حوالے سے کیا کہیں گے جو پولیس میں کالی بھیڑوں کی صورت میں موجود ہیں۔

عدالتی اور انتظامی فیصلوں میں جو کرمنلز پولیس سے برطرف کیے گئے کیا ان کا ڈیٹا اور ان کی حرکات و سکنات بھی نگرانی میں ہیں۔

کیا اسٹریٹ کرمنلز سمیت دیگر جرائم میں ملوث ملزمان کے شناختی کارڈز اور ان کی پراپرٹی کو سیل نہیں کیا جاسکتا؟ شناختی کارڈز بلاک کرنے سے کچھ تو اقدامات نظر آسکتے ہیں۔

کراچی ملک کا معاشی حب ہے کیا یہاں ملک بھر سے روزانہ کی بنیاد پر آنے والے ہزاروں لوگوں کا کوئی ڈیٹا مرتب کیا جاتا ہے؟ جس میں روزانہ درجنوں کرمنلز بھی اس گنجان آباد شہر میں آکر کچی آبادیوں اور پوش علاقوں میں روپوش ہو جاتے ہیں۔

نیشل ایکشن پلان، اپیکس کمیٹی اور امن وامان کے غیر معمولی اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کہاں تک ہوا اور اس میں تسلسل کیوں نہیں رہتا، کوئی مکینزم کیوں نہیں بنایا جاتا؟

کیوں گزشتہ 10 سالوں سے سیف سٹی نام کا منصوبہ صرف کاغذوں میں چل رہا ہے، کون اسے غیر معمولی تاخیر کا نشانہ بنا رہا ہے؟ سیف سٹی منصوبے میں غیر معمولی تاخیر یہ بتا رہی ہے کہ کہیں گڑبڑ ہے، کوئی ایسی قوت ہے جو اس شہر کے مجموعی امن و امان کی دشمن ہے اور کسی صورت یہاں مستقل مکینزم اور قانون کی گرفت مضبوط نہیں ہونے دینا چاہتی۔

حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس معاملے میں اپنی کارکردگی پر غور کرنے کی ضرورت ہے جہاں اب تک درجنوں معصوم شہری جرائم پیشہ افراد کا نشانہ بن کر اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔

مزید خبریں :