17 مارچ ، 2022
اب جب کہ حکومتی پارٹی (پی ٹی آئی )کے اپنے کئی اراکین منحرف ہوکر سامنے آچکے ۔ میڈیا کو انٹرویوز میں ضمیرکےمطابق ووٹ دینے کا اعلان کرچکے۔ دعویٰ کیا کہ 24 پی ٹی آئی اراکین منحرف ہوچکے ۔ رمیش کمار نے تو یہاں تک دعویٰ کردیا کہ تین وفاقی وزراء بھی پارٹی چھوڑ چکے۔ تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ
کہانی ختم ہوچکی؟
پارٹی اِز اوور؟
کمپنی نہیں چل سکی؟؟
کھیل ختم؟؟
قسط وار سلسلہ کا یہ کلائمیکس ناقابل یقین ہے۔ یہ حکومتی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ ہم نے پچھلے کالم میں ذکرکیا تھا کہ پلان یہ ہے کہ آہستہ آہستہ ۔۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ۔۔ قسطوں میں چیزیں سامنے لائی جائیں گی۔
پچھلی قسطوں میں۔۔اسپیکر پنجاب اسمبلی اور اہم ترین حکومتی اتحادی پرویز الہٰی کے پے درپے دو انٹرویوز تابوت میں اولین کیل کی طرح پیوست ہوئے۔
پرویز الہٰی کے انٹرویوز نے توپوں کا رخ اپوزیشن سے (تاحال اتحادی )کی طرف موڑ دیا۔ قاف لیگ کو یوٹو بروٹس کہنے سے لے کر سوشل میڈیا ٹرولز کی جانب سے اوقات یاد دلانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 5سیٹیں اور وزرات اعلیٰ کی خواہش کےطعنے مارے گئے۔
لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت کے سرِ پردہ ( پسِ پردہ نہیں) محسن دو لوگ تھے۔ پرویز الہٰی اور جہانگیر ترین ( کاجہاز) ۔۔۔ ورنہ تحریک انصاف کو انتخابات کے بعد پنجاب میں مطلوبہ عددی برتری حاصل نہ تھی اور پنجاب میں حکومت نہ بنا کر عمران خان کتنی دیر تک وزیراعظم رہ سکتے تھے؟
بقول پرویز الہٰی گود میں اٹھائے رکھا گیا ساڑھے تین سال!
پی ٹی آئی کا سنجیدہ دانشور اور متین فکری حلقہ سمجھتا ہے کہ وزیراعظم کچھ ضدوں سے دستبردار ہوکر معاملہ کو اب بھی سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بعض کو یقین ہے کہ“بڑوں” سے اتنی جلدی رشتہ ختم نہیں ہوسکتا ۔ خان کو تنبیہہ کی جارہی ہے۔ اور سب پھر سے خوشی خوشی رہنے لگیں گے۔ کچھ کا خیال ہے خان کے پاس کچھ صوابدیدی اختیار ایسے ہی کہ وہ آخری لمحے میں پانسہ پلٹ دیں گے۔ اور سب پرانی تنخواہ پر کام کریں گے۔ خان ول سروائیو!۔۔۔۔لیکن منحرفین کے کلائمیکس کے بعد لگتا ہے گل ودھ گئی۔
مگر وہ کیا کہتے ہیں سیاست کھیل ہی ممکنات کا ہے۔ کل اگر منحرفین کو صلح پر آمادہ کرلیا جاہے۔کل اگر پرویز الہٰی کو بہ امر مجبوری یا بخوشی اسی اتحاد پر راضی بہ رضا ہونا بھی پڑجائے تو بھی پرویز الہٰی۔۔ “تین سال گود میں لے کر نیپیاں بدلوانے” ،” کہتاہے کہ ان کی باتیں مان کر میں فیل ہوگیا “اور “پہلے سوچو پھر تولو پھر بولو” جیسے بیانات لیے یہ دو انٹرویوز بہت سارے ریکارڈز سیدھے کرگئے ہیں۔
منحرفین کے سامنے آنے کے بعد شاید ہی کچھ بچا ہو۔
اگر صورتحال اتنی واضح ہے تو ملک کے وسیع تر مفاد میں افراتفری، بحران، بھونچال، ہیجان اور کشمکش کو رفع کرتے ہوئے ہائی مورل گراؤنڈز اختیار کرنے چاہییں۔ خان صاحب کے لیے پاکستان پہلی ترجیح ہونی چاہیے ۔ اقتدار نہیں۔ باقی ضد اور انا منقی چیزیں ہیں۔ منفی نتیجہ ہی لاتی ہیں۔
عمران خان یہ فیصلہ کرنے میں کتنی دیر لگائیں ۔ یہ ابھی نہیں کہا جاسکتا۔ ہر گزرتے لمحے پوچھا جارہا ہے۔ اور کتنی دیر۔۔۔
افتخار عارف کے اشعار اسی کیفیت کے عکاس ہیں۔
جاہ و جلال، دام و درم اور کتنی دیر
ریگِ رواں پہ نقش قدم اور کتنی دیر
اب اور کتنی دیر یہ دہشت، یہ ڈر، یہ خوف
گرد و غبار عہدِ ستم اور کتنی دیر
حلقہ بگوشوں، عرض گزاروں کے درمیان
یہ تمکنت، یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر
پل بھر میں ہو رہے گا حسابِ نبود و بود
پیچ و خم و وجود و عدم اور کتنی دیر
دامن کے سارے چاک، گریباں کے سارے چاک
ہو بھی گئے بہم تو بہم اور کتنی دیر
شام آ رہی ہے، ڈوبتا سورج بتائے گا
تم اور کتنی دیر ہو، ہم اور کتنی دیر
(افتخار عارف)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔