20 اپریل ، 2022
تحریک انصاف نے 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 149 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جس کے بعد عمران خان نے اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ق) ، متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی سمیت دیگر آزاد ارکان کو شامل کرکے حکومت بنائی۔
عمران خان نے 18 اگست 2018 کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا جس کے بعد انہوں نے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر تقریباً 3سال 8 ماہ حکومت کی لیکن مہنگائی اور خراب معاشی حالات کے باعث عمران خان کو مسلسل تنقید کا سامنا رہا۔
عمران حکومت کو چوتھے سال میں ان کے سیاسی مخالفین نے اس وقت مشکل میں ڈالا جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی جو شدید سیاسی و آئینی بحران کے بعد بلآخر 10 اپریل کو کامیاب ہوئی اور تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنی۔
عمران خان کے دورِ حکومت میں جہاں مہنگائی نے عوام کو پریشان کیے رکھا وہیں ان کے دور میں کچھ ایسی چیزیں بھی ہوئیں جو بڑے واقعات کے طور پر میڈیا کی زینت بنی رہیں۔
آئیے عمران خان حکومت میں پیش آنے والے 10 بڑے واقعات کے بارے میں جانتے ہیں۔
عمران حکومت آنے کے 7 ماہ بعد بھارت نے پاکستان میں فالس فلیگ آپریشن کا دعویٰ کیا جس میں بھارتی فوج کاکہنا تھا کہ اس نے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کرکے دہشتگردوں کے ٹریننگ سینٹرز کو تباہ کیا ہے۔
بھارت کے اس دعوےکے بعد پاکستان کی فوج نے پڑوسی ملک کو سرپرائز دینے کا فیصلہ کیا جو پاکستان کی فضائیہ نے 27فروری 2019 کو بھارت کو دیا، اس روز پاکستانی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے بھارت کے جھوٹے دعوے کے جواب میں اسے بھرپور جواب دیتے ہوئے 2 طیارے مارے گرائے جب کہ ایک پائلٹ ابھی نندن کو بھی گرفتار کر لیا گیا جسے بعد میں حکومت نے جذبہ خیر سگالی کے تحت رہا کردیا۔
پاکستان میں عمران حکومت کے قیام کے تقریباً ایک سال بعد مقبوضہ کشمیر سے متعلق غیر معمولی صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب مودی حکومت نے اچانک مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔
مودی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا تھا اور نا ہی وادی میں جگہ خرید سکتا تھا۔
بھارت کے اس اقدام پر پاکستان کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا جس کے نتیجے میں پاکستان نے بھارت سے تجارتی تعلقات ختم اور سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا جب کہ پاکستان نے اس وقت کے بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
بعد ازاں حکومت نے بھارت کے اس اقدام کے خلاف مختلف پلیٹ فارمز پر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔
3- نوازشریف کی بیرون ملک روانگی
عمران خان دورِحکومت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کے معاملے پر ایک ہیجانی کیفیت تھی، نواز شریف ایون فیلڈ کیس میں جیل میں سزا کاٹ رہے تھے کہ اس دوران انہیں طبیعت ناسازی کے باعث اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد نوازشریف کے پلیٹیلیٹس میں اتار چڑھاؤ کا معاملہ سامنے آیا۔
وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کے ساتھ مل کر اس معاملے کی تحقیقات کی اور نوازشریف کی طبی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد عدالتی فیصلے کی روشنی میں انہیں وفاقی کابینہ نے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف 19نومبر 2019 کو لاہور سے لندن روانہ ہوگئے۔
نواز شریف کو لے کر قطر ائیرویز کے طیارے نے صبح ساڑھے 10 بجے اڑان بھری جب کہ لندن میں طیارے نے پاکستانی وقت کے مطابق رات 10 بجکر 33 منٹ پر ہیتھرو ائیرپورٹ پر لینڈ کیا۔
بعد ازاں سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کو عمران خان نے اپنی غلطی بھی تسلیم کیا اور کہا کہ انہیں اس معاملے پر گمراہ کیا گیا۔
عمران خان کا دورِ حکومت نیب کارروائیوں اور سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کے حوالے سے بھی مشہور رہا جس دوران سابق صدر، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو گرفتار کیا گیا۔
عمران دورِ حکومت میں نیب نے 11 جنوری 2019 کو سابق صدر اور پی پی رہنما آصف زرداری کو گرفتار کیا۔
نیب نے سابق صدر آصف زرداری کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار کیا تھا۔
عمران خان دور حکومت میں (ن) لیگ کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان بھی نیب کا نشانہ بنے اور نیب نے انہیں بھی گرفتار کرلیا۔
نیب نے 18جولائی 2019کو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو لاہور جاتے ہوئے ٹول پلازہ پر روکا جہاں نیب حکام انہیں ٹھوکر نیاز بیگ سے گرفتار کرکے ساتھ لے گئے۔
بعد ازاں نیب نے ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری ظاہر کی۔
عمران خان حکومت کے ابتدائی دور میں ہی سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور (ن) لیگ کے صدر شہباز شریف نیب کے نشانے پر آگئے۔
نیب نے 5 اکتوبر 2018 کو شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں طلب کیا تھا لیکن جب وہ بیان ریکارڈ کرانے پہنچے تو انہیں آشیانہ اسکیم کیس میں گرفتار کرلیا گیا تاہم شہباز شریف کو بھی عدالت سےضمانت پر رہائی ملی۔
عمران خان نے اپنے دورِ حکومت میں 19اگست 2019 کو پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید جاوید کی مدت ملازمت میں توسیع کی جس پر بعد میں تنازع کھڑا ہوگیا۔
سپریم کورٹ میں اس حوالے سے ایک درخواست دائر ہوئی جس پر عدالت نے 26 نومبر 2019 کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا۔
عدالت نے اس معاملے پر 28 نومبر کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کی منظوری دی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگر 6 ماہ میں قانون نہ بن سکا توآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر 2019 سے ریٹائر تصور ہوں گے اور صدر پاکستان، وزیر اعظم کی ایڈوائس پر حاضر سروس جنرل کا بطور آرمی چیف تقرر کریں گے۔
عمران خان کے دور میں ایک تنازع آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کا بھی سامنے آیا جب اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی مدت پوری ہونے کےبعد نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی ہونا تھی۔
آئی ایس آئی سربراہ کی مدت پوری کرنے والے فیض حمید کو فوج نے کورکمانڈر پشاور تعینات کیا جب کہ ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا نام نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے لیے سامنے آیا مگر یہ معاملہ اس وقت طول پکڑ گیا جب نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار ہوا۔
اس حوالے سے کئی رپورٹس سامنے آئیں جس میں حکومت اور فوج کے درمیان ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے حوالے سے ناخوشگوار تعلقات کی باتیں سامنے آئیں جب کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے بھی اس حوالے سے کابینہ کو بتایا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوگا۔
تاہم کئی روز قیاس آرائیوں اور افواہوں کی گردش کے بعد حکومت نے بلآخر لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا اور وزیراعظم آفس نے 26اکتوبر 2021 کو ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
عمران حکومت کو ایک بڑا دھچکا 3 مارچ 2021 کو لگا جب سینیٹ میں حکومت کی یقینی فتح اچانک شکست میں تبدیل ہوگئی۔
عمران خان نے سینیٹ کے انتخاب میں سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو اپنا امیدوار نامزد کیا تھا اور انہیں اپنے امیدوار کی کامیابی کا یقین بھی تھا لیکن سینیٹ میں بازی اچانک پلٹ گئی اور اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی نے حفیظ شیخ کو شکست دے دی۔
حفیظ شیخ کی شکست کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کیا تھا۔
عمران خان کی حکومت میں 8 جنوری 2022کا دن کسی قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا جب سیاحتی مقام مری میں برف کے طوفان اور بدترین انتظامی نااہلی کے باعث 22لوگ جان سے گئے۔
سیاحتی مقام مری میں شدید برفباری میں ہزاروں سیاح پھنسے جس کے باعث ایک ہی خاندان کے 8 افراد سمیت مجموعی طور پر 22 افراد گاڑیوں میں دم گھٹنے سے زندگی کی بازی ہار گئے۔
پی ٹی آئی حکومت اور عمران خان کے لیے 9 فروری 2022کا دن بھی کچھ اچھا نہ تھا جب عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نااہل قرار پائے۔
الیکشن کمیشن نے طویل عرصے چلنے والے دوہری شہریت کے کیس میں فیصل واوڈا کو نااہل قرار دیا اور ان کی بطور سینیٹر کامیابی کا نوٹیفکیشن بھی واپس لینے کا حکم دیا۔
عمران حکومت میں ایک بڑا واقعہ 4مارچ کو پیش آیا جب جمعہ کے روز پشاور کے علاقے قصہ خوانی میں نماز سے قبل مسجد میں خودکش دھماکا ہوا۔
کوچہ رسالدار کی جامع مسجد میں ہونے والے اس دھماکے میں 60 سے زائد افراد شہید ہوئے لیکن عمران خان بطور وزیراعظم اس واقعے پر تعزیت کے لیے پشاور نہیں پہنچے۔