پاکستان میں 25 فیصد مریض اپنے لیے ادویات خود تجویز کرتے ہیں،طبی ماہرین

پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔فوٹو: جیونیوز
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔فوٹو: جیونیوز

 پاکستان میں تقریباً 25 فیصد مریض اپنے لیے ادویات خود تجویز کرتے ہیں اور یہ ادویات براہ راست میڈیکل اسٹورز سے خرید لیتے ہیں، خاص طور پر اینٹی بائیوٹک ادویات کا بغیر ڈاکٹری نسخے کے استعمال بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے اکثر بیماریوں میں یہ ادویات بے اثر ثابت ہونا شروع ہوگئی ہیں۔

ان خیالات کا اظہار ہسٹری آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے وائس چانسلر اور پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کی جنرل سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر صومیہ اقتدار، پروفیسر آفتاب محسن، پروفیسر ڈاکٹر زمان شیخ، پروفیسر ڈاکٹر عیس محمد، ڈاکٹر فرحان عیسیٰ، پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمان سمیت دیگر ماہرین صحت بھی موجود تھے۔

پروفیسر جاوید اکرم نے اس موقع پر بتایا کہ کل سے کراچی میں پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کی تیسری کانفرنس شروع ہو رہی ہے جس کے دوران 92 سائنٹیفک سیشن ہوں گے جن میں ڈاکٹروں کو سائنسی بنیادوں پر ثابت شدہ ادویات کے استعمال کی جانب راغب کیا جائے گا۔

پروفیسر جاوید اکرم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بدقسمتی سے متعدی اور غیر متعدی امراض بڑھتے جا رہے ہیں، ہمارے ملک میں ہر دوسرا بالغ فرد ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہے اورتقریباً 25 فیصد آبادی شوگر کے مرض میں مبتلا ہے، جب تک ان مریضوں کو سائنسی تحقیق پر مبنی ادویات نہیں دی جائیں گی ان کا علاج ممکن نہیں۔

انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ پاکستان میں تقریباً 42 فی صد بچے وزن کی زیادتی یا موٹاپے کا شکار ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے سالوں میں یہ بچے بھی ہائی بلڈ پریشر اور شوگر کے مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

بچوں میں شوگر کے مرض میں مبتلا ہونے کی بڑھتی ہوئی شرح کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ دس سال کی عمر میں شوگر کے مرض کا شکار ہونے والے اکثر بچوں کو انسولین کی ضرورت نہیں ہوتی اور ایسے بچوں میں وزن کم کرنے سمیت کھانے والی ادویات کے ذریعے شوگر کو کنٹرول کر کے انہیں صحت مند رکھا جا سکتا ہے۔

انہوں نے اس موقع  پر بتایا کہ پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن اپنی کانفرنس کے دوران سائنسی طور پر ثابت شدہ ادویات کا سرچ انجن شروع کرنے جا رہی ہے جس کے ذریعے ڈاکٹروں کو مریضوں کی علامات اور ان کے ٹیسٹ رزلٹ کو سامنے رکھ کر ان کے لیے موزوں ترین ادویات تجویز کرنے میں آسانی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا سائنسی تحقیق کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کو قرآن پاک کی تعلیم اور اخلاقیات کی تربیت بھی فراہم کی جا رہی ہے تاکہ وہ مریضوں کو اپنے جیسا انسان سمجھ کر ہمدردی کے ساتھ ان کا علاج کر سکیں۔

اس کے علاوہ پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کے رہنما پروفیسر ڈاکٹر آفتاب محسن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سالانہ ایک ارب انجیکشن لگائے جاتے ہیں، جن میں سے تقریباً 90 فیصد غیر ضروری طور پر لگائے جاتے ہیں جبکہ 70 فیصد انجیکشن غلط طریقوں سے لگائے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں ڈاکٹروں کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ وہ مریضوں کو سائنسی طور پر ثابت شدہ ادویات اور طریقہ علاج فراہم کرے تاکہ وہ اپنے امراض سے چھٹکارا پا سکیں۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کے ایک اور رہنما پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ان کی کانفرنس میں پاکستان کے مختلف شہروں سمیت مشرق وسطیٰ، یورپ کے مختلف ممالک اور امریکا سے ماہرین صحت شرکت کر رہے ہیں جو کہ اپنی جدید تحقیق کے ذریعے سائنسی طور پر ثابت شدہ ادویات کے استعمال کے حوالے سے اپنی تحقیق پیش کریں گے۔

اس کے علاوہ پریس کانفرنس سے پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سومیہ اقتدار اور پروفیسر زمان شیخ نے بھی خطاب کیا۔

مزید خبریں :