بچوں میں پراسرار ہیپاٹائٹس کی وجہ اب تک معلوم نہ ہوسکی

حالیہ مہینوں میں ایسے سیکڑوں کیسز سامنے آئے ہیں / رائٹرز فوٹو
حالیہ مہینوں میں ایسے سیکڑوں کیسز سامنے آئے ہیں / رائٹرز فوٹو

دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے بچوں میں ایک خطرناک اور پراسرار بیماری کا پھیلاؤ جاری ہے اور یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ کیا اس کے پیچھے کووڈ 19 ہے، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

اکتوبر 2021 سے دنیا کے مختلف حصوں میں ہیپاٹائٹس کے ایسے 600 سے زیادہ کیسز بچوں میں سامنے آچکے ہیں جن کی وجہ اب تک معلوم نہیں ہوسکی ۔

ان میں سے زیادہ تر کیسز ایسے بچوں کے ہیں جو پہلے صحت مند تھے مگر پھر اچانک بہت زیادہ بیمار ہوگئے۔

ہیپاٹائٹس کے ایسے سب سے زیادہ کیسز برطانیہ میں دریافت ہوئے ہیں جن کی تعداد 197 ہے جبکہ امریکا 180 کیسز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے ۔

بیشتر کیسز میں مریض بچوں میں بیماری کی شدت اتنی تھی کہ انہیں ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔

اگرچہ زیادہ تر کیسز میں بیماری کی شناخت ہوگئی مگر ان کی وجہ اب بھی طبی معمہ بنی ہوئی ہے۔

امریکا کی مینیسوٹا یونیورسٹی کے وبائی امراض اور میڈیکل مائیکرو بائیولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر جیسن کائنڈرچک نے بتایا کہ اس حوالے سے صورتحال ہر گھنٹے بدل رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم مسئلے کی شناخت کے لیے بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں مگر ہمیں نہیں لگتا کہ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن ہے ۔

اگرچہ بچوں میں جگر کے معمولی ورم کا مسئلہ غیرمعمولی نہیں مگر شدید ورم ضرور منفرد ہے ۔

برطانیہ میں عموماً ایک سال میں 8 سے 10 کیسز میں جگر کی پیوندکاری کی جاتی ہے مگر 2022 کے 3 ماہ میں یہ تعداد 11 تک پہنچ چکی ہے۔

عالمی سطح پر 26 مریضوں کو جگر کی پیوندکاری کی ضرورت پڑی جبکہ 5 سے 11 سال کی عمر کے مریضوں میں 50 فیصد کے قریب اموات امریکا میں ہوئیں ۔

مریضوں کے بلڈ ٹیسٹ میں جگر کے شدید ورم کا علم تو ہوا مگر یہ بھی انکشاف ہواکہ عام وجوہات بشمول ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای اس کے پیچھے نہیں۔

متعدد امکانات پر کام کیا جارہا ہے جیسے یہ کوئی نیا وائرس تو نہیں جس کی اب تک شناخت نہیں ہوسکی یا یہ کوئی اس وقت موجود ایسا وائرس ہے جو نئی علامات کا باعث بن رہا ہے۔

ایک وائرس جس پر سب سے زیادہ تحقیقی کام ہورہا ہے وہ ایڈینووائرس ہے جو متعدد مریضوں کے دوران خون میں دریافت ہوا ہے ۔

اس وائرس کی 41 ویں قسم کو مریضوں کے جگر میں دریافت کیا گیا ہے جو کہ ہیپاٹائٹس کا باعث بننے والے وائرس کے حوالے سے غیرمعمولی دریافت ہے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ کورونا وائرس کے طویل المعیاد اثرات کا ایک حصہ ہوسکتا ہے کیونکہ ایسے کئی مریض بچے پہلے کوویڈ 19 کا سامنا بھی کرچکے ہیں ، مگر متعدد کیسز میں کووڈ کی تاریخ دریافت نہیں ہوسکی۔

مگر کوویڈ اور جگر کے مسائل کے درمیان تعلق پہلے ہی ثابت ہوچکا ہے اور وبا کے دوران بچوں اور بڑوں میں کوویڈ کو شکست دینے کے بعد ہیپاٹائٹس کے امکان کو دیکھا گیا ہے۔

کوویڈ سے متاثر ہونے والے بچوں میں ملٹی سسٹم انفلیمٹری سینڈروم (ایم آئی ایس سی) کے کیسز کو بھی دریافت کیا  گیا ہے اور یہ بھی جگر کو نقصان پہنچانے والا عارضہ ہے ۔

نئی تحقیق میں ہیپاٹائٹس کے حالیہ کیسز کی ممکنہ وجہ پر کام کیا گیا ہے۔

بھارتی محققین نے ایک پری پرنٹ تحقیق 9 مئی کو جاری کی تھی جس میں کوویڈ کی بغیر علامات والی بیماری کے بعد بچوں میں ہیپاٹائٹس کے امکان کی جانچ پڑتال کی گئی۔

تحقیق میں کوویڈ سے متاثر ہونے والے 475 میں 37 بچوں میں ہیپاٹائٹس کی علامات والی بیماری کو دریافت کیا گیا اور علاج کے بعد وہ سب ٹھیک ہوگئے۔

ایک اور بڑی تحقیق میں کوویڈ 19 کا سامنا کرنے والے ہزاروں بچوں کے جگر کے افعال کا موازنہ نظام تنفس کی بیماریوں کے شکار بچوں سے کیا گیا۔

اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کوویڈ سے متاثر بچوں میں جگر کے افعال میں غیرمعمولی منفی اثرات کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ جاتا ہے اور یہ مسئلہ کم از کم 6 ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے۔

مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہیپاٹائٹس کے ان غیرمعمولی کیسز کو کوویڈ سے منسلک کیا جاسکتا ہے بلکہ محققین اب اس حوالے سے مزید کام کرنا چاہتے ہیں۔

اب یہ ایڈینووائرس کی وجہ سے ہو، کورونا وائرس، ان دونوں کے امتزاج یا اس کے پیچھے کوئی اور ہی وجہ ہو، مگر اب تک ہونے والی تحقیق سے وائرسز کے ممکنہ طویل المعیاد اثرات کا عندیہ ملتا ہے ۔

مگر محققین کا کہنا تھا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ اب ہم جانتے ہیں کہ کورونا اور دیگر متعدد وائرسز کی روک تھام کیسے کی جاسکتی ہے یعنی فیس ماسک کا استعمال، ہوا کی نکاسی کا بہتر نظام، ہاتھ دھونا، ہر اہل فرد کی ویکسینیشن اور دیگر۔

مزید خبریں :