22 جون ، 2022
ٹائیفائیڈ بخار کا باعث بننے والے بیکٹریا میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگیا ہے اور اس کی نئی اقسام تیزی سے ابھر رہی ہیں۔
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
ایس ٹائیفی نامی بیکٹریا کے اب تک سب سے بڑے جینوم سیکونسنگ میں اس کی ایسی اقسام کو دریافت کیا گیا جو ٹائیفائیڈ کے علاج میں مددگار 2 اہم ترین اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔
دی لانسیٹ نامی طبی جریدے میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ اس بیکٹریا کی ادویات کو بے اثر بنانے والی اقسام بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں جو باعث تشویش ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری کی روک تھام کے اقدامات پر عملدرآمد کتنا ضروری ہے۔
ٹائیفائیڈ بخار سے دنیا بھر میں ہر سال ایک کروڑ 10 لاکھ افراد متاثر ہوتے ہیں جن میں سے ایک لاکھ ہلاک ہوجاتے ہیں۔
ٹائیفائیڈ کے علاج کے لیے اینٹی بائیوٹک ادویات کو بہت زیادہ مؤثر مانا جاتا ہے مگر زیادہ طاقتور اقسام پھیلنے سے ان ادویات کی افادیت میں کمی آرہی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ بنگلا دیش، بھارت، نیپال اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں ٹائیفائیڈ سب سے زیادہ عام ہے اور دنیا بھر کے 70 فیصد کیسز اس خطے میں سامنے آتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق بیکٹریا کی ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والی اقسام سب سے پہلے جنوبی ایشیا میں ہی نمودار ہوئیں اور 1990 کے بعد سے دنیا کے دیگر خطوں تک پھیل گئیں۔
تحقیق میں 1905 سے 2018 کے درمیان 70 سے زیادہ ممالک میں محطوظ کیے گئے ایس ٹائیفی کے 4169 نمونوں کا تجزیہ بھی کیا گیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ سال 2000 سے نیپال، بھارت اور بنگلا دیش میں ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والی ٹائیفائیڈ کی ایم آر ایس نامی قسم کے پھیلاؤ میں کمی آئی جبکہ پاکستان میں اس کے کیسز میں معمولی اضافہ ہوا، مگر اس عرصے میں دیگر نئی اقسام نے اس کی جگہ لینا شروع کردی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ 1990 کے بعد سے ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیکٹریا کے پھیلاؤ میں کم از کم 94 گنا اضافہ ہوا ہے اور اس کی 97 فیصد اقسام جنوبی ایشیا سے پھیلنا شروع ہوئیں۔
ٹائیفائیڈ کے علاج کے لیے عام استعمال ہونے والی دوا Azithromycin کے خلاف مزاحمت کرنے والی اقسام 2013 کے بعد سے زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہیں، ان کے کیسز جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، مشرقی اور جنوبی افریقا کے ساتھ ساتھ امریکا، کینیڈا اور برطانیہ میں بھی سامنے آئے ہیں۔