بڑھتی آبادی کا ٹائم بم

گزشتہ دنوں پاکستان سمیت دنیا بھر میں آبادی کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد بڑھتی ہوئی آبادی کو درپیش مسائل کے بارے میں عوام میں شعور اور آگاہی پیدا کرنا تھا۔ دنیا کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اس نے مجھ سمیت ہر ذی شعور کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

 دنیا کی آبادی اس وقت 8 ارب کے قریب پہنچ گئی ہے اور اگر آبادی میں اسی رفتار سے اضافہ جار ی رہا تو 2050ء تک دنیا کی آبادی 10ارب 50 کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔

یاد رہے کہ 1800ء میں دنیا کی آبادی ایک ارب نفوس پر مشتمل تھی جو 130سال بعد 1930ء میں دگنا اضافہ کے ساتھ 2 ارب اور پھر صرف 30سال بعد 1960ء میں بڑھ کر 3ارب ہوگئی، اِس طرح اب دنیا کی آبادی میں ہر 12سال بعد ایک ارب افراد کا اضافہ ہورہا ہے اور آج دنیا کی آبادی 7.9ارب تک پہنچ چکی ہے۔

آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اتنی تیزی سے وسائل میں اضافہ نہیں ہورہا۔ دنیا بھر کے بے شمار مسائل آبادی میں اضافے سے جڑے ہوئے ہیں جن میں خوراک کی فراہمی، علاج، رہائش، تعلیم اور دیگر بنیادی اشیاء شامل ہیں۔ افسوس کہ وسائل میں کمی کے باعث اِن میں سے ایک ارب سے زائد افراد خالی پیٹ سونے پر مجبور ہیں۔

آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک چین ہے جس کی آبادی ایک ارب 43کروڑ، دوسرے نمبر پر بھارت ایک ارب 38کروڑ، تیسرے نمبر پر امریکہ 33کروڑ، چوتھے نمبر پر انڈونیشیا 27کروڑ، پانچویں نمبر پر پاکستان 22کروڑ، چھٹے نمبر پر برازیل 21کروڑ،ساتویں نمبرپر نا ئیجر یا 20 کروڑ، آٹھویں نمبر پر بنگلہ دیش 17 کروڑ، نویں نمبر پر روس 15 کروڑ اور میکسیکو 13 کروڑ آبادی کے ساتھ دسویں نمبر پر ہے۔

گوکہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے مگر ملک میں آبادی کی شرح خطے کے ممالک ایران، بھارت، چین اور سری لنکا سے تقریباً 2فیصد زیادہ ہے، تاہم خطے میں افغانستان وہ واحد ملک ہے جس کی شرح آبادی پاکستان سے زیادہ 2.3فیصد ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ایران میں 1.4فیصد، بھارت میں 1.2 فیصد، سری لنکا میں 0.6فیصد اور چین میں آبادی کی شرح 0.3فیصدہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خطے کے ان ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں آبادی کی شرح تقریباً دگنی ہے اور حکومت آبادی پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے ،جو لمحہ فکریہ ہے۔

 ہمارے سامنے بنگلہ دیش کی مثال ہے جس کی شرح آبادی 1.1فیصد ہے جو اس بات کی غمازی ہے کہ بنگلہ دیش نے اسلامی ملک ہونے کے باوجود آبادی کنٹرول کرنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔

قیام پاکستان کے وقت ملک کی آبادی 4کروڑ نفوس پر مشتمل تھی تاہم 1981ء کی مردم شماری میں یہ آبادی بڑھ کر 8کروڑ اور 1998ء کی مردم شماری میں 14کروڑ نفوس تک جاپہنچی جبکہ تقریباً 20سال بعد 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20کروڑ 77لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ اِس طرح گزشتہ 7دہائیوں میں آبادی میں 5گنا اضافے کے ساتھ پاکستان آبادی کے لحاظ سے سرفہرست ملک بن چکا ہے اور اگر آبادی میں اِسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب 2050ء تک پاکستان کی آبادی 30کروڑ تک جاپہنچے گی۔

 ایوب دور ِحکومت میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ مہم شروع کی گئی اور آبادی پر کنٹرول کیلئے کئی مثبت اقدامات کئےگئے، اس سلسلے میں بہبود آبادی کی وزارت بھی تشکیل دی گئی مگر یہ محکمہ واضح حکومتی پالیسی نہ ہونے کے سبب بے بس نظر آیا اور ٹی وی چینلز و اخبارات میں ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ جیسے اشتہارات پر پیسوں کا ضیاع کرکے اپنی ذمہ داریاں پوری کررہا ہے۔پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی پر وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کا حالیہ بیان سمجھ سے بالاتر ہے جس میں انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ پاکستانی شادی شدہ جوڑے کسی ایسے ملک جاکر بچے پیدا کریں، جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں۔

حکومت کو چاہئے کہ تیزی سے بڑھتی آبادی کی روک تھام کیلئے پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کی وزارت ازسرنو تشکیل دے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے تحت خاندانوں کی مالی امداد کو شرح پیدائش میں کمی سے مشروط کیا جائے اور کم بچے رکھنے والے خاندان کے سربراہ کو مراعات اور روزگار کی فراہمی میں ترجیح دی جائے تاکہ آبادی کے جن پر قابو پایا جاسکے۔

 اس سلسلے میں بنگلہ دیش ماڈل سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے جس نے آبادی کنٹرول کرنے کیلئے مساجد اور علماء کی خدمات حاصل کیں جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور بنگلہ دیش شرح آبادی پر قابو پانے میں کامیاب رہا۔ ملک میں بڑھتی آبادی کیلئے تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، ٹرانسپورٹ اور روزگار دستیاب نہیں اور وسائل میں آبادی کے لحاظ سے اضافہ نہ ہونے کے باعث حکومت نے اگر بڑھتی آبادی پر قابو نہ پایا اور ملکی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو مستقبل میں اِس کے بھیانک نتائج برآمدہوسکتے ہیں۔

 اگر حکومت نے اس سنگین مسئلے پر فوری توجہ نہ دی تو پاکستان کی آبادی میں ہوشربا اضافہ ایک ٹائم بم کی مانند ثابت ہوسکتا ہے جس سے پورا ملک تباہی سے دوچار ہوسکتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔