07 اکتوبر ، 2022
ٹرانس جینڈر ( تحفظ حقوق ) ایکٹ مئی 2018 میں سوائے تین افراد کے پوری قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر پاس کیا۔ ہماری قوم میں کم ہی ایسے مواقع آئے ہیں جب اس نوع کا اتفاق رائے ہوا ہو ورنہ بالعموم افتراق و انتشار ہی ہماری قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔
خوش قسمتی سے اگر پارلیمنٹ کسی ایشو پر یکسو یا متفق ہوئی تو پارلیمنٹ کے باہر غیر منتخب مذہبی مکتبۂ ہائے فکر نے یہ سوچا کہ اس قوم میں کسی بھی ایشو پر افتراق کے بجائے اتحاد و اتفاق کیوں ہو اگر پارلیمنٹ ایسے کر رہی ہے تو ہم کیوں نہ اسٹریٹ پاور کے زور سے اسے تہس نہس کر دیں اوراپنی طاقت منوائیں۔
ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کے تمام اکیس کے اکیس پوائنٹ پڑھتے چلے جائیں سوائے ایک مظلوم اور دھتکارےہوئے طبقے کو تحفظ دینے کے کہیں کوئی ایسی بات نہیں ہے، جسے بنیاد بنا کر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھایا جائے، پورے ایکٹ میں مرد کی مرد سے شادی کے حوالے سے کہیں کوئی ایک لفظ بھی نہیں ہے ۔
یہ قانون ٹرانس جینڈر افراد کو قانونی شناخت فراہم کرنے کے علاوہ ان کےساتھ روا رکھے گئے امتیازی سلوک اور ہراساں کئے جانے کے خلاف ایک نوع کا تحفظ فراہم کرتا ہے اور حکومت کو بھی کچھ ذمہ داریوں کے حوالے سے پابند کرتا ہے مثلاً سرکاری دستاویزات، شناختی کارڈ،ڈرائیونگ لائسنس یا پاسپورٹ وغیرہ میں تھرڈ چائس جیلوں یا حوالات میں مخصوص مقامات،پروٹیکشن سنٹرز، لوکل گورنمنٹ کی فلاحی ذمہ داری یا بھیک منگوانے میں رکاوٹ وغیرہ۔
اسی طرح ایجوکیشن یا وراثت کے حصول کا حق ، ملازمت کا حق، ووٹ اور پبلک اجتماع کا حق، صحت، پراپرٹی اور دیگر اس نوع کے بنیادی حقوق۔دیکھا جائے تو یہ تمام وہ رسمی حقوق ہیں جو ہمارے آئین کے مطابق مملکت کے عام شہریوں کو بلاامتیاز حاصل ہیں لیکن یہ ہمارے سماج کا ایسا دکھی طبقہ ہے جسے پیدائش سے لیکر مرنے تک مختلف النوع
منافرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسلئے اس ایکٹ کی ضرورت قابل فہم ہے یعنی بنیادی طور پر یہ کوئی مذہبی ایشو نہیں،بلکہ اول و آخر ایک پسے ہوئے طبقے کو انسانی حقوق دلانے کی کاوش ہے ۔شق 2کے مطابق ایشو ٹرانس جینڈر کی تشریح کا بنایا جا رہا ہے جس طرح ٹرانس جینڈر کا مطلب ہے جنس کی تبدیلی اسی طرح انٹرسیکس جینڈر پیدائشی طور پر وہ بچہ ہوتا ہے جو میل ہو نہ فی میل بلکہ پیدائش کے وقت اس کی غیر واضح جنسی پہچان سے اسے مخنث یا ہیجڑا قرار دے دیا جاتا ہے لیکن بڑے ہونے پر اس کی جسمانی ساخت میں کچھ تبدیلیاں آتی ہیں تو اس کے کروموسومز کی مطابقت میں ابنارمیلٹی کے جھکائو کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔
جہاں تک ٹرانس جینڈر افراد کا معاملہ ہے یہ بظاہر یا بائیو لوجیکلی ایک مرد یا ایک عورت کی طرح ہی ہوتے ہیں البتہ ان کے میلانات یا جنسی رجحانات مختلف النوع ہو سکتے ہیں، زیادہ تر کیسز میں میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے ان کے جنسی میلان یا رجحان کا تعین نہیں کیا جاسکتا مثال کے طور پر ایک مرد نظر آنے والے شخص کا اگر میڈیکل کیا جائے تو وہ ایک مرد ہی ثابت ہوگا لیکن اس کے اندرونی احساسات عورت والے ہونگے جو اسے عورت کی طرف نہیں مرد کی طرف راغب کریں گے۔
ایک عورت ہے، میڈیکل ٹیسٹ میں بھی وہ عورت ہی ثابت ہوتی ہے مگر اس کے اندرونی میلانات فطری و جبلی ہارمونز کی بدولت مردوں والے ہیں بظاہر عورت ہوتے ہوئے بھی اس کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ مردوں میں کشش محسوس کرے۔
یہاں پورے ٹرانس جینڈر ایکٹ میں کہاں شادی کا کوئی ذکر ہے، لازم تو نہیں جو بظاہر جیسا دکھتا ہے حقیقت میں بھی ویسا ہی ہو اگر کوئی شخص بظاہر عورت ہے لیکن اندرونی رجحان و میلان میں جبلی طور پر مردانہ کروموسومز کا حامل ہے اور مردوں جیسے کپڑے پہننا پسند کرتا ہے تو تم کیوں جبری طور پر اسے مجبور کرنے پر مصر ہو کہ نہیں تم جعلی طور پر اپنے ظاہر کی مطابقت میں عورتوں کی طرح بن کر رہو اگر آپ یہ سمجھتے ہو کہ کوئی حقیقت میں مرد ہے اس کا اندرونی رجحان بھی مردوں والا ہے لیکن وہ دھوکہ دیتے ہوئے عورت بنا ہوا ہے تو ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچو کہ کسی بھی مرد کیلئے عورت کا روپ دھارنا کون سے فخر کی بات ہے؟
آپ اپنی سیاست کسی اور مسئلے میں چمکا لو ٹرانس جینڈر کو اگر ایک معمولی نوعیت کا رائٹ آف سیلف ڈیٹر مینیشن مل رہا ہے تو یہ اس کی زندگی یا بنیادی انسانی حق کا ایشو ہےجس پر اعتراض نہیں کیا جانا چاہئے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔