12 دسمبر ، 2022
رانا ثنااللّٰہ منشیات برآمدگی کیس میں بری ہوگئے منشیات برآمد ہوئی نہ کوئی ایسا معاملہ سامنے آیا۔ رانا ثنا کو PTI حکومت میں یکم جولائی 2019ء کو گرفتار کیا گیا، 6ماہ جیل کاٹی، وکیل صفائی نے کہا کہ منشیات برآمد کرنے والے اسسٹنٹ ڈائریکٹرز الزامات کی تردید کررہے ہیں، ANF سپیشل کورٹ میں پراسیکیوشن کے دو گواہ منحرف، دیگر شریک ملزمان بھی بری ہوگئے۔
دونوں گواہان کے حوالے سے بیان حلفی عدالت میں جمع کروائے گئے اور کہا گیا کہ منشیات برآمدگی کا واقعہ ان کے سامنے نہیں ہوا، انسپکٹر احسان عظیم اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر امتیاز چیمہ نے بیان حلفی اے این ایف عدالت میں جمع کروایا اور کہا کہ رانا ثناء سے ہمارے سامنے منشیات برآمد نہیں ہوئی۔
دونوں گواہان کا کہنا تھا کہ اے این ایف نے انہیں خود گواہ نامزد کیا تاہم ان کے سامنے کوئی منشیات برآمد نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی ایسا معاملہ سامنے آیا۔
یکم جولائی 2019 کو انسداد منشیات فورس نے رانا ثناء اللّٰہ خان کو گرفتار کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ 15کلو گرام منشیات رانا ثناء اللّٰہ سے برآمد ہوئی ہے اور رانا ثناء اللّٰہ منشیات کا کاروبار کرتے ہیں۔ انہوں نے چھ ماہ تک جیل کاٹی،اس کے بعد 24دسمبر2019کو لاہور ہائی کورٹ نے رانا ثناء اللّٰہ کی بعد ازگرفتاری ضمانت منظورکرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس کیس میں ابھی تک رانا ثناء اللّٰہ اور دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی تھی۔ یہ خبر آج تمام اخبارات میں شائع ہوئی۔ یہ سب کچھ پڑھ کر تحریک انصاف دور کے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور اُس وقت کے اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل عارف ملک کی پریس کانفرنس یاد آ گئی جس میں رانا صاحب کی گرفتاری پر اُنہیں منشیات کے کسی بین الاقوامی گروہ کا اہم رکن بنا کر پیش کیا گیا تھا اور قوم کو یقین دلایا گیا تھا کہ تمام ثبوت موجود ہیں، ویڈیوز بھی حکومت کے پاس ہیں ، گواہیاں بھی مکمل ہیں اور سب کچھ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
بعد میں شہریار آفریدی بار بار کبھی قومی اسمبلی کے فلور پر تو کبھی ٹی وی چینلز پر قسمیں کھا کھا کر کہتے رہے کہ تمام ثبوت اُنہوں نے خود دیکھے۔
وہ کہتے رہے کہ اللّٰہ کو جان دینی ہے جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے اور دنیا کے سامنے عدالت میں ثابت ہوگا۔
جب رانا صاحب کو گرفتار کیا گیا تو تحریک انصاف کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنما اور میڈیا کی بڑی تعداد نے اُسی وقت سے اس گرفتاری پر سوال اُٹھانے شروع کر دیے۔ بعد میں سی سی ٹی وی فوٹیج جو سامنے آئی اُس نے تو سارے جھوٹ کا پول کھول دیا لیکن اس کے باوجود شہریار آفریدی اور اے این ایف اپنے الزامات کو دہراتے رہے۔
بعد میں ایک ٹی وی پروگرام میں فواد چوہدری نے تسلیم کیا کہ رانا ثنا اللّٰہ پر جھوٹا کیس بنایا گیا جس کا الزام اُنہوں نے اے این ایف پر ڈالا۔
جس کیس میں رانا صاحب کو ملوث کیا گیا اُس کی سزا موت ہے۔ اُنہیں موت کی سزا پانے والے مجرموں کی کوٹھڑی میں رکھا گیا۔ شہریار آفریدی اب وزیر نہیں رہے، اے این ایف کے وہ سربراہ بھی ریٹائر ہو چکے۔ یہ سب جھوٹ اُنہوں نے کیوں بنا، کیوں ایک بے قصور شخص پر منشیات کا اتنا بڑا کیس بنایا؟ اللّٰہ کو سب نے جان دینی ہے۔
کیا شہریار آفریدی اور ریٹائرڈ میجر جنرل عارف ملک رانا صاحب سے اور قوم سے معافی مانگیں گے اور اپنا جرم تسلیم کریں گے۔
یہ تو وہ ہے جو کم از کم ہے جو اُن دونوں کو کرنا چاہیے۔ ورنہ جھوٹا کیس بنانے پر دونوں کے خلاف کیس چلنا چاہیے اور ریٹائرڈ میجر جنرل کا کورٹ مارشل کر کے اُن سے ریٹائرمنٹ کی تمام سہولتیں واپس لینی چاہیے۔
ویسے عمران خان جو آج کل اعظم سواتی اور شہباز گل کی گرفتاری کے دوران اُن سے مبینہ بدسلوکی (جس کی حکومت اور متعلقہ ادارے تردید کر رہے ہیں) پر قانون کی عملداری اور انصاف کی بات کرتے ہیں کیا رانا صاحب کے کیس میں بھی کچھ بولیں گے؟
خان صاحب کو یاد دہانی کرانی ہے کہ جو کچھ رانا صاحب کے ساتھ ہوا اس وقت عمران خان ملک کے وزیر اعظم تھے اور شہریار آفریدی اُن کی کابینہ کے رکن تھے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)