03 فروری ، 2023
اسلام آباد: شاہد خاقان عباسی کو دو مرتبہ عمران خان کی حکومت میں اُس وقت وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش کی گئی تھی جب وہ جیل میں تھے۔ تاہم، ذرائع کا کہنا ہے کہ، شاہد عباسی نے پیشکش قبول کرنے سے انکار کردیا۔
انہیں یہ پیشکش اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے ایک مشترکہ دوست کے توسط سے کی تھی۔ اُن دنوں مفتاح اسماعیل اڈیالہ جیل میں تھے۔ جب ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ شاہد عباسی نے انہیں بتایا تھا کہ ایک مشترکہ دوست نے ملاقات کی اور بتایا ہے کہ اس وقت کی اسٹیبلمشنٹ چاہتی ہے کہ انہیں وزیراعظم بنایا جائے۔
مفتاح نے کہا کہ انہیں اس ’’مشترکہ دوست‘‘ کا نام معلوم ہے جو یہ پیشکش لیکر شاہد خاقان عباسی کے پاس پہنچے تھے لیکن انہوں نے یہ نام اس نمائندے کو نہیں بتایا۔
مفتاح کے مطابق، شاہد خاقان عباسی کو یہ بھی کہا گیا کہ وہ مفتاح اسماعیل سمیت اپنی کابینہ میں جسے چاہیں لگاسکتے ہیں تاہم، مفتاح نے کہا کہ میری معلومات کے مطابق عباسی کو ان کی جیل کے دنوں میں یہ پیشکش کی گئی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہد عباسی کو کہا گیا تھا کہ اگر وہ رضامند ہوں تو انہیں عمران خان کی جگہ وزیراعظم لگایا جاسکتا ہے جن کا طرز حکمرانی اور کارکردگی اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کیلئے انتہائی مایوس کن تھا۔ مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ ہی عمران خان سیاسی جوڑ توڑ اور 2018 کے الیکشن میں ہیرا پھیری کے ذریعے اقتدار میں لائی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں مرتبہ شاہد خاقان عباسی نے اسٹیبلشمنٹ کو مشترکہ دوست کے ذریعے پیغام دیا کہ وہ اس طرح کی پیشکش میں دلچسپی نہیں رکھتے اور اگر اسٹیبلشمنٹ کے ذہن میں کوئی خیال ہے تو وہ میاں نواز شریف سے رابطہ کرے۔
اُس وقت میاں نواز شریف اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کیلئے بالکل ناقابل قبول شخصیت بنے ہوئے تھے جب کہ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے پہلے ہی وزارت عظمیٰ کا عہدہ اس شرط پر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ مسلم لیگ نون میں وہ اپنے گروپ کی قیادت کریں۔
شہباز شریف کو یہی پیشکش 2018 کے الیکشن سے قبل بھی کی گئی تھی لیکن انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بتا دیا تھا کہ وہ اپنے بڑے بھائی اور قائد کے ساتھ غداری نہیں کر سکتے۔ تاہم شاہد عباسی کو عمران خان کے دور میں پیشکش موصول ہوئی اور وہ بھی اس وقت جب وہ جیل میں تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہد عباسی ایک مرتبہ پھر جیل میں تھے اور اس وقت جنرل باجوہ کو بحیثیت آرمی چیف عہدے میں توسیع دی گئی تھی اور یہ معاملہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ بھیج دیا تھا۔
پی ٹی آئی حکومت پہلے ہی جنرل باجوہ کو توسیع دے چکی تھی لیکن جب اپوزیشن بشمول پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے توسیع کے حوالے سے نئی قانون سازی کی حمایت کی اس وقت شاہد عباسی نے ایسی قانون سازی پر سخت احتجاج کیا تھا اور مسلم لیگ نون کی قیادت کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔
انہوں نے پارٹی قیادت کو احتجاجاً ایک رقعہ بھی بھیجا۔ پارٹی قیادت نے عباسی کا مشورہ نظرانداز کرتے ہوئے مکمل طور پر متنازع قانون سازی کی حمایت کی۔
نوٹ: یہ خبر 3 فروری 2023 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی