13 جون ، 2023
اسلام آباد کے نجی اسپتالوں میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افرادکا علاج نہیں کیا جا رہا ہے، جب کہ ملک میں ایچ آئی وی متاثرہ مریضوں سے امتیازی سلوک برتنےکا بھی انکشاف ہوا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق صرف پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) اسلام آباد ہی ایچ آئی وی سے متاثرہ افرادکی آخری جائے پناہ ہے جہاں ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد، راولپنڈی،گلگت بلتستان اور آزادکشمیر سے بھی ایچ آئی وی کے مریض پمز اسلام آباد میں علاج کے لیے آنے پر مجبور ہیں۔
ماہرین صحت کا کہنا ہےکہ پاکستان بھر کے زیادہ تر نجی اسپتال ایچ آئی وی کے مریض داخل نہیں کرتے اور ملک میں ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔
اس حوالے سے وفاقی وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہےکہ ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو علاج میں درپیش مشکلات سے آگاہ ہیں، ایچ آئی وی متاثرین کو اسپتالوں میں درپیش امتیازی سلوک سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کر رہے ہیں۔
وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہےکہ ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو علاج کی سہولت فراہم نہ کرنے پر ہیلتھ کیئر کمیشنز اور ہیلتھ کیئر اتھارٹی ایکشن لے سکتی ہے۔
ماہرین صحت ایچ آئی وی اور ایڈز کو دو مختلف چیزیں قرار دیتے ہیں، ایچ آئی وی ایک وائرس ہے جو ہمارے مدافعتی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے جب کہ ایڈز ایچ آئی وی انفیکشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی حالت ہے جس میں ہمارا مدافعتی نظام شدید کمزور ہو جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ایچ آئی وی وائرس اگر کسی شخص میں موجود ہے تو وہ ایڈز کا مریض نہیں، اگر مناسب احتیاط کے ساتھ ادویات استعمال کی جائیں تو متاثرہ شخص معمول کی زندگی گزار سکتا ہے، پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اپنی تمام عمر ایچ آئی وی کے ساتھ گزار دے اور یہ وائرس ایڈز میں تبدیل نہ ہو۔
ایچ آئی وی کے علاج کی ادویات وائرس کو ختم نہیں کرتیں لیکن مریض کی قوت مدافعت کو قائم رکھتی ہیں تاہم اگر ایچ آئی وی وائرس متاثرہ شخص کی قوت مدافعت پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو مریض آہستہ آہستہ ایڈز کے مرض کا شکار ہوجاتا ہے۔