05 دسمبر ، 2023
آج سے تقریباً 15 سال پہلے 2008 میں پاکستان میں ایک قتل ہوا اور اس قتل کے بعد جب ریاست ملزم کو گرفتار کرنے میں ناکام ہوئی اور ملزم ملک سے فرار ہوگیا تو مقتول کی بیٹی نے 12 سال کی تلاش کے بعد 2020 میں سوشل میڈیا کے ذریعے قاتل کو ڈھونڈ کر پاکستانی حکومت کو اس حوالے سے آگاہ تو کردیا لیکن 3 سال گزرنے کے باوجود ریاست ملزم کو گرفتار نہیں کر پارہی ہے۔
یہ کیس اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے سابق ریجنل چیف محمد احمد امجد کے قتل کا ہے جنہیں 2008 میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے آفس کے اندر 10 گولیاں مار کر قتل کردیا گیا تھا اور اس کیس میں جو ملزم ہیں، وہ بھی اسٹیٹ لائف انشورنس کے سابق سیلز منیجر سید تقی حیدر شاہ ہیں۔
کیس کے دستاویز ات کا جائزہ لینے کے بعد اوپن اینڈ شٹ کیس لگتا ہے لیکن پاکستان کے کمزور نظام انصاف کی وجہ سے یہ کیس آج تک لٹک رہا ہے اور 2008 سے مفرور ملزم اب تک گرفتار نہیں ہوسکا ہے۔
مقتول کی بیٹی ماہم امجد جو متحدہ عرب امارات میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں، انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت 2020 میں انٹرنیٹ پر سرچنگ کے دوران ملزم کی لنکڈن پروفائل کا پتہ لگا دیا تھا کہ ملزم متحدہ عرب امارات میں مقیم ہے اور اس حوالے سے ضروری کارروائی کا آغاز بھی کردیا تھا۔
متحدہ عرب امارات نے بھی ملزم کو پاکستان کے حوالے کرنے کی رضامندی ظاہر کردی تھی لیکن ان تمام تر حقائق کے باوجود پاکستان کی وزارت خارجہ اب تک ملزم کی دبئی سے پاکستان حوالگی کو ممکن نہیں بناسکی ہے جس کی وجہ سے دبئی میں پاکستانی مشن کی صلاحیتوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
مقتول کی بیٹی جو اس وقت دبئی میں مقیم ہیں انہوں نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ’میرے والد کے قتل میں صرف تقی شاہ ملوث نہیں بلکہ یہ ایک پری پلان قتل تھا جس میں دیگر لوگ بھی شامل تھے اور وہ نہیں چاہتے کہ تقی شاہ وطن واپس آئے‘۔
ماہم امجد نے مزید کہا کہ ’وزارت خارجہ نے اس کیس میں کچھ بھی نہیں کیا ہے اور میں نے پاکستان کی وزارت داخلہ کی طرف سے بھیجی گئی ایکسٹرا ڈیشن کی فائل کی کاپی جب متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف سے شیئر کی تو انہوں نے مجھے یہ بتایا کہ ایسی فائل ہم تک نہیں پہنچی ہے‘۔
ماہم امجد کے الزامات کس حد تک درست ہیں، اس کا حتمی فیصلہ تو عدالتوں نے کرنا ہے لیکن اس کیس کا جائزہ لینے کے دوران ایسی تفصیلات سامنے آئی ہیں جو نہ صرف حیران کن ہیں بلکہ اس سے کئی لوگوں پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں اور اس پورے معاملے کو سمجھنے کیلئے ہمیں 2008 میں، محمد احمد امجد کے قتل سے ایک مہینے پہلے کی ٹائم لائن پر جانا ہوگا۔
ہماری تحقیقات اور ریسرچ کے مطابق جولائی 2008 میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی اندرونی کمیونیکیشن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سب کی منظوری کے باوجود اسٹیٹ لائف انشورنس کے ریجنل چیف محمد احمد امجد اپنے سیلز منیجر تقی حیدر شاہ کی ایک نئے ایریا منیجر کے ساتھ اٹیچمنٹ کی درخواست پر دستخط نہیں کر رہے تھے جس کی وجہ سے ملزم تقی شاہ ناخوش تھے اور ریجنل چیف محمد احمد امجد پرا س حوالے سے دباؤ ڈال رہے تھے۔
اگست 2008 میں قتل ہونے والے افسر محمد احمد امجد نے اپنے قتل سے ایک ماہ پہلے ہی اپنی جان کو لاحق خطرات سے متعلق انشورنس کمپنی کی اُس وقت کی انتظامیہ کو آگاہ کردیا تھا مگر اِس کے باوجود مقتول کو کوئی سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی اور ملزم تقی حیدر شاہ کامیابی سے اسلحے کے ساتھ دفتر میں داخل ہوا اور اُس نے اپنے ہی ریجنل چیف پر 10 گولیاں چلادیں۔
یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ 7 اگست 2008 کے اپنے خط میں ریجنل چیف محمد احمد امجد نے اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی منیجمنٹ کو خط لکھ کر واضح طو رپر یہ بتایا کہ ادارے کے زونل لیول پر کچھ افراد اپنے ذاتی مفادات کیلئے تقی حیدر شاہ کو اشتعال دلا رہے ہیں اور پھر اس خط کے 19 دن بعد محمد احمد امجد کو اسٹیٹ لائف انشورنس کراچی میں اُن کے دفتر کے اندر اُن کا قتل کردیا گیا۔
اس واقعے کے بعد کمپنی کے تین ملازموں نے اُس وقت پولیس کو گواہی دی اور دعویٰ کیا کہ جس شخص نے مقتول پر گولیاں چلائی ہیں، وہ شخص کمپنی کا ہی ملازم تقی حیدر شاہ ہی تھا۔
ملازمین کی گواہی کے بعد 2008 میں محمد احمد امجد کے قتل کا مقدمہ تو درج ہوگیا اور اُن کے ناقابل ضمانت وارنٹ بھی جاری ہوگئے لیکن پولیس اُن وارنٹ کی تعمیل نہیں کرواسکی کیونکہ ملزم قتل کے فوری بعد فرار ہوچکا تھا جس کی وجہ سے 11 مئی 2009 کو کراچی کی سیشن عدالت نے تقی حیدر شاہ کو اشتہاری قرار دے دیا اور پھر 29 جنوری کو ایڈیشنل سیشن جج نے تقی حیدر شاہ کی گرفتاری تک اس کیس کو ڈورمینٹ فائل میں ڈالنے کے احکامات دے دیے۔
قتل ہونے کے 12 سال تک ملزم کا کچھ پتا نہیں چلا بظاہر نہ ریاست نے کوئی دلچسپی ظاہر کی اورمقتول کے خاندان کے مطابق نہ ہی اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن نے اس کیس میں کوئی دلچسپی دکھائی۔ اہم بات یہ ہے کہ جس وقت محمد احمد امجد کا قتل ہوا تھا تو اُن کی ایک بیٹی ماہم امجد کی عمر صرف 15 سال تھی اور وہ تب سے اپنے والد کے قتل میں ملوث ملزم کا سراغ لگانے کی کوشش کرتی رہی۔
5 سال پہلے ماہم امجد متحدہ عرب امارات میں شفٹ ہوگئیں اور وہاں مارکیٹنگ کے کیریئر اور ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے جُڑ گئیں۔
اور اُن کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ قاتل بھی اس وقت دبئی میں ہی مقیم ہے لیکن وہ مشہور کہاوت ہے کہ مجرم چاہے کتنا شاطر کیوں نہ ہو، وہ کچھ ثبوت پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔
اور پھر یہی ہوا کہ اکتوبر 2020 میں اپنے روٹین سرچ کے دوران ماہم امجد کو ایک لنکڈن پروفائل نظر آیا جس پر ملزم تقی حیدر شاہ کا نام لکھا ہوا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس پروفائل میں تقی حیدر شاہ نے اپنی ملازمت کے تجربے میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن پاکستان کا نام درج کیا ہوا تھا۔
یہیں سے ماہم امجد نے 12 سال بعد اپنے والد کے قتل میں ملوث ملزم کا سراغ لگا لیااور پاکستان میں اس حوالے سے قانونی کارروائی کا آغاز کردیا اور تقی شاہ کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک کرنے کی کارروائی شروع کردی لیکن 2022 میں تقی حیدر شاہ کو اس پورے معاملے کی بھنک پڑ گئی اور انہوں نے نومبر 2022 میں سعودی عرب سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا۔
تقی شاہ نے اُس ویڈیو پیغام میں محمد احمد امجد کے قتل کی تردید تو کردی لیکن ساتھ ہی وہ اس قتل سے متعلق خوشی کا اظہار بھی کرتا رہا۔ اس دھمکی آمیز ویڈیو کے بعد ماہم امجد نے دبئی حکام کے سامنے شکایت درج کی اور اطلاعات کے مطابق وہاں کے حکام نے تقی حیدر شاہ کو 2022 کے آخر میں نو ٹریول لسٹ میں ڈال دیا اور پھر پاکستان میں ماہم امجد نے پاکستان میں عدالتی کارروائی کا سہارا لیکر تقی حیدر شاہ کیخلاف پاکستان سے ریڈنوٹس جاری کروایا۔ ریڈ نوٹس جاری ہونے کے بعد یہ طے ہوگیا تھا کہ ملزم تقی شاہ کو جلد پاکستان لایا جائے گا لیکن ان واقعات کے بعد پاکستانی حکام کا جو کنڈکٹ سامنے آیا ہے وہ بہت حیران کن ہے۔
ریڈ نوٹسز جاری ہونے کے بعد جنوری 2023 میں متحدہ عرب امارات کے حکام نے تقی حیدر شاہ کو گرفتار کرلیا اور پھر انٹرپول متحدہ عرب امارات نے جنوری 2023 کو نیشنل سینٹرل بیورو پاکستان کو خط لکھا اور مؤقف اختیار کیا کہ’تقی حیدر شاہ گرفتار ہوچکا ہے اس کی پاکستان کو حوالگی کیلئے ایکسٹرا ڈیشن فائل 30 دن کے اندر فراہم کی جائے اور ان دستاویزات کی عربی ترجمے کے ساتھ ساتھ اٹیسٹیشن ہونی چاہیے‘۔
پھر جب پاکستان نے یہ فائل فروری 2023 کو متحدہ عرب امارات کے حکام کو جمع کروائی تو2 مارچ 2023 کو متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف نے اُس فائل پر 5 اعتراضات عائد کردیے اور فائل واپس کرکے ملزم کی حوالگی کیلئے ان اعتراضات کو 30 دن کے اندر دور کرنے کو کہا۔
جب یہ فائل واپس ہوئی تو یہ پاکستان میں مختلف محکموں میں گھومتی رہی اور معاملہ مارچ سے مئی تک چلا گیا اور 29 مئی کو وزارت داخلہ نے ایک بار پھر اعتراضات دور کرکے ایکسٹرا ڈیشن فائل کو ابو ظبی میں پاکستانی مشن کو بھجوا دیا اور ایک بار پھر یہ فائل متحدہ عرب امارات کے حکام کو جمع کروائی گئی لیکن متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف نے ایک بار پھر اس فائل پر اعتراض لگا کر کہا کہ اس میں پاکستان کی سینٹرل اتھارٹی یعنی وزارت داخلہ کی درخواست شامل نہیں ہے اور ایک بار پھر پھر یہ فائل گھومتی گھومتی جولائی 2023 کو پاکستان کی وزارت داخلہ میں پہنچی۔
اس کے بعد وزارت داخلہ کے سیکشن افسر مہر محمودی نے 17 جولائی 2023کو پاکستان کی وزارت خارجہ اور متحدہ عرب امارات کے حکام کو مخاطب کرکے ایک خط لکھا جس میں مؤقف اختیار کیا کہ’متحدہ عرب امارات جولائی میں جس دستاویز کامطالبہ کر ر ہا ہے، وہ تو وزارت داخلہ خارجہ کے ذریعے 26 مئی کو ہی بھجواچکا تھا اور ایک بار پھر تسلی کیلئے اُس کی کاپی لگوائی جارہی ہے‘۔
مگر حیران کن بات یہ ہے کہ یہ فائل جمع ہونے کے بعد پھر اگست میں ایک بار پھر متحدہ عرب امارات فائل کو اعتراض لگا کرواپس بھیج دیتا ہے لیکن اس بار وہی ابتدائی 5اعتراضات لگا دیے جاتے ہیں جو مئی 2023میں ہی وزارت داخلہ دور کرکے وزارت خارجہ کو بھیج چکی تھی۔
جس کے بعد 25 اگست کو وزارت داخلہ کے سیکشن افسر مہر محمودی سرکاری سطح پر یہ خط لکھ کر تمام فریقوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ ’اس کیس میں جتنے بھی دستاویزات کا تقاضہ کیا گیا ہے کہ وہ وزارت خارجہ کو دے دیے گئے ہیں، متحدہ عرب امارات کی طرف سے کچھ آبزرویشنز وہ تمام دستاویزات فراہم کرنے کے باوجود دوبارہ آرہی ہیں جو الارمنگ ہے، وزارت داخلہ نے اس حوالے سے تمام ضروریات پوری کردی ہیں اور متحدہ عرب امارات کی تمام آبزرویشنز کو بھی نمٹا دیا گیا ہے اور اب کوئی وجہ نہیں بچتی کہ اس فائل کو دوبارہ وزارت داخلہ کو بھیجا جائے‘۔
وزارت داخلہ کے اس جواب کے بعد 31 اگست کو تقی شاہ کی حوالگی کی فائل پاکستان سے متحدہ عرب امارات دوبارہ بھیجی گئی اور 6 ستمبر کو دبئی میں موجود پاکستانی مشن نے وزارت خارجہ کوآگاہ کیا کہ اس فائل میں عالمی گرفتاری کے وارنٹ موجود نہیں ہیں۔
جس کے بعد 19 ستمبر 2023کو وزارت داخلہ اپنے سرکارکی خط میں وزارت خارجہ کو جواب دیتی ہے کہ ’عالمی گرفتاری کے وارنٹ تو پہلے ہی متحدہ عرب امارات کے ساتھ شیئر کیے جاچکے ہیں اور ریڈ نوٹس تک تو آن لائن رسائی بھی حاصل کی جاسکتی ہے‘۔
اس پوری صورتحال کے بعد 23 اکتوبر کو وزارت خارجہ کے ڈپٹی چیف آف پروٹوکول گیان چند نے سندھ ہائی کورٹ میں یہ بیان جمع کروایا کہ ’سید تقی حیدر شاہ کی حوالگی کیلئے ہمارا مشن مسلسل متحدہ عرب امارات کے حکام سے رابطہ کر رہا ہے اس حوالے سے انہیں 11 اکتوبر کو ایک ریمائنڈر بھیجا گیا ہے اور جیسے ہی اس حوالے سے کوئی جواب آتا ہے تو عدالت کو اس حوالے سے آگاہ کیا جائے گا‘۔
ساتھ ہی وزارت خارجہ عدالت کو یہ بھی بتاچکی تھی کہ ملزم تقی حیدر شاہ ابوظبی میں زیر حراست نہیں اور نہ ہی وہ دبئی پولیس کی قید میں ہے۔
یعنی مقتول محمد احمد امجد کی بیٹی کی طویل جدوجہد کے بعد جنوری میں ملزم کی حوالگی کا معاملہ شروع ہوا اور 11 ماہ بعد اب دسمبر تک وہ حل نہیں ہوسکا ہے اور ملزم کے اہل خانہ یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ ایسا جان بوجھ کر کیا جارہا ہے اور متحدہ عرب امارات میں ہی پاکستانی حکام کی طرف سےایکسٹراڈیشن فائل سے چھیڑ چھاڑ کیا جارہا ہے۔
اس پورے معاملے پر وزارت داخلہ کے ایک ذرائع جو اس کیس سے وابستہ تھے انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں یہ بتایا کہ ’اس کیس میں متاثرہ خاندان کے ساتھ ظلم ہوا ہے، متحدہ عرب امارات کے ابتدائی اعتراضات درست تھے جنہیں حل کردیا گیا تھا اُس کے بعد مسلسل دوبارہ ایک ہی جیسے اعتراضات کا سامنا آنا حیران کن تھا‘۔
ذرائع نے مزید کہا کہ میں نے اپنی پوسٹنگ کے دوران ملزم کی حوالگی کا ایساکیس نہیں دیکھا جہاں متحدہ عرب امارات بار بار اعتراضات لگا کر بھیج رہا ہو، مجھے نہیں معلوم ایسا آخر کیوں ہورہا تھا لیکن یہ نارمل پریکٹس نہیں تھی۔
ہم نے پاکستان کی دفتر خارجہ سے اس حوالے سے رابطہ کیا اور اُن سے اس نہ سمجھ آنے والے التوا اور متاثرہ خاندان کے الزامات سے متعلق ایک سوالنامہ بھیجا تو اُن کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہمیں جواب دیا کہ’متعلقہ کیس فروری 2023 کو متحدہ عرب امارات کو بھجوایا گیا تھا اور تب سے دونوں حکومتوں کا آپس میں رابطہ رہا ہے، ہم نے ملزم کی حوالگی کیلئے تمام اضافی تفصیلات فراہم کردی ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ملزم کی حوالگی متحدہ عرب امارات کے قوانین کے مطابق ہے‘۔
دفتر خارجہ نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ’ہمیں اس حقیقت کا علم ہونا چاہیے کہ ملزم کی حوالگی سے متعلق جو میوچل اسسٹنس کے معاملات ہوتے ہیں اُن پر متعلقہ حکومتوں کی طرف سے غور و فکر کیا جاتا ہے، اس لیے ایسے کیسز میں وقت لگتا ہے‘۔
دفتر خارجہ کے مطابق’حقائق کو مسخ کرنے اور ایکسٹراڈیشن فائل سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے الزامات بے بنیاد ہیں کیونکہ ایکسٹراڈیشن کی ہر فائل کو وزارت خارجہ اور کونسلر افسر سمیت متعلقہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسی نے اسٹیمپ اور اٹیسٹ کیا ہے، یہ کیس اس وقت سندھ ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے اور متحدہ عرب امارات میں ہمارا سفارتخانہ عدالتی احکامات کی مکمل پیروی کر رہا ہے‘۔
ساتھ ہی ہم نے ملزم تقی حیدر شاہ کے بیٹے زین العابدین کو سوالنامہ بھیجا مگر انہوں نے ہمیں کوئی جواب نہیں دیا۔
اس کے علاوہ مقتول کے خاندان کا یہ دعویٰ ہے کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن نے اُن کی مدد کرنے کے بجائے ملزم اور اُس کے خاندان کو سہولیات فراہم کی ہیں اور ملزم تقی حیدر شاہ متحدہ عرب امارات میں فرار ہونے کے بعد وہاں پر اسٹیٹ لائف انشورنس کے دفتر بھی جاتا رہا ہے اور اُن کیلئے کام بھی کرتا رہا ہے۔
ہم نے اسٹیٹ لائف انشورنس پاکستان سے رابطہ کیا اور انہیں سوالنامہ بھیجا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔