02 مارچ ، 2013
کراچی … سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی عملدرآمد کیس کے عبوری حکم میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن جب اور جیسے چاہے مردم شماری کا انتظار کئے بغیر حلقہ بندی تبدیل کرسکتا ہے، بظاہر لگتا ہے الیکشن کمیشن فیصلے پر عمل کرنا ہی نہیں چاہتا۔ سپریم کورٹ کی لارجر بینچ نے جسٹس خلجی عارف حسین کے 6 صفحات کے اضافی نوٹ سمیت 27 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔ حکم کے مطابق عدالت نے زور نہ دینے پر ایم کیو ایم کی حلقہ بندی سے متعلق نظر ثانی کی درخواست مسترد کردی۔ تحریری حکم میں کہاگیا ہے کہ متعلقہ حکام نے ایک سال گزرنے کے باوجود فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا، وطن پارٹی کیس میں حلقہ بندی سے متعلق سپریم کورٹ نے آبزرویشن نہیں احکامات دیئے، آرٹیکل 51 کی سب سیکشن 2 قومی اسمبلی کی نشستیں مختص کرنے سے متعلق ہے، حلقہ بندی سے نہیں?۔ حکم کے مطابق 1974ء کا حلقہ بندی ایکٹ نئی حلقہ بندیوں پر پابندی عائد نہیں کرتا اور نہ ہی یہ قانون الیکشن کمیشن کے اختیارات پر پابندی لگاتا ہے، قانون سے مطابقت نہ رکھنے پر الیکشن کمیشن کی درخواست مسترد کردی گئی۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا کہ شفاف انتخابات الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہیں، حلقہ بندیوں کی تشکیل آبادی، جغرافیائی، انتظامی یونٹ، ذرائع آمدورفت اور عوامی سہولت کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے، قانون کے مطابق حلقہ بندی صرف مساوی آبادی ہی نہیں بلکہ ملی جلی آبادیوں پر بھی مشتمل ہونی چاہئے۔ الیکشن کمیشن نے بھی اتفاق کیا کہ کراچی میں مردم شماری کے بغیر بھی حلقہ بندیوں کی ضرورت ہے، اکتوبر 2011ء سے اب تک حلقہ بندی سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کیا گیا حالانکہ اس پر عمل کر کے لوگ صحیح نمائندے منتخب کرسکتے اور ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔ عدالت کو آئندہ عام انتخابات سے قبل حلقہ بندی نہ کرنے کی وجوہات سے بھی لاعلم رکھا گیا، زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق الزامات پر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو شازر شمعون، اویس مظفر عرف ٹپی اور دیگر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت آئندہ سیشن تک ملتوی کردی گئی۔