25 مارچ ، 2014
کراچی…حکومت عوام پر دو طریقوں سے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتی ہے،خزانے کو منہ بھرنے کے لیے صرف 40 فیصد ڈائریکٹ اور باقی 60 فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا بوجھ عوام کے کندھوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ ٹیکس جو براہ راست آپ کی آمدن پر عائد ہو اسے ڈائریکٹ ٹیکس کہتے ہیں۔ جیسے تنخواہ دار افراد کو ہر ماہ اپنی تنخواہ ٹیکس کٹوتی کے بعد ملتی ہے۔حکومت تنخواہ دار طبقے سے تو ٹیکس وصولی باآسانی کرلیتی ہے لیکن ٹیکس مشینری کی ناقص کارکردگی اور خود حکومت آشیرباد کے باعث بڑے بڑے سرمایاکار ، جاگیردار اور تاجر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔خزانے کو بھرنے کی خاطر حکومت پھر ٹیکس اشیاء اور خدمات پر عائد کردیتی ہے جس سے غریب طبقے پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔مثا ل کے طور پر نمک پر جی ایس ٹی کی صورت میں ٹیکس لاکھوں روپے کمانے والا بھی دے رہا ہے اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والا مزدور بھی۔فی لیٹر پٹرول پر جتنا ٹیکس ایک بڑی گاڑی رکھنے والا دے رہا ہے اتنا ایک چھوٹی موٹر بائیک چلانے والا بھی ۔اس طرح کے ٹیکس نظام میں امیر سے امیر تر اور غریب کی حالت مزید پتلی ہوتی جاتی ہے۔اس لیے ضروی ہے کہ اشیاء پر ٹیکس لگانے کے بجائے حکومت ٹیکس دائرہ سیع کرکے ان لوگوں کے گریباں پر ہاتھ ڈالے جو اس ملک سے بہت کچھ کماتے ہیں لیکن ایک دھیلا ٹیکس نہیں دیتے۔