خصوصی رپورٹس
24 مئی ، 2017

پسماندہ صوبے بلوچستان میں غیر رسمی تعلیمی پالیسی کا اجراء

پسماندہ صوبے بلوچستان میں غیر رسمی تعلیمی پالیسی کا اجراء

بلوچستان میں تعلیم کاشعبہ مناسب توجہ نہ دئیےجانے کی بناء پر ہمیشہ سےپسماندگی کاشکاررہا ہے،جس کی وجہ سے دیگرکئی مسائل نےجنم لیا،لیکن اب خوش آئند بات ہے کہ صوبائی حکومت نے پہلی غیررسمی تعلیمی پالیسی کی منظوری دے دی ہے اور اس کا اجراء بھی کردیاگیاہے۔

بلوچستان کی غیررسمی تعلیمی پالیسی کےاجراء کےحوالےسےتقریب کوئٹہ کےایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی،تقریب میں اسپیکر صوبائی اسمبلی محترمہ راحیلہ حمیدخان درانی، وزیراعلیٰ کےمشیربرائے اطلاعات سردار رضامحمد بڑیچ،جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی’’جائیکا‘‘کےپاکستان میں نمائندے یاسوہیروتوجو،یونیسکواوریونیسیف کےنمائندوں کےعلاوہ صوبائی حکومت کےمتعلقہ سینئر بیوروکریٹس اورتعلیم کےشعبے میں کام کرنےوالے غیرسرکاری اداروں کےنمائندےبھی شریک ہوئے۔

تقریب سے خطاب میں اسپیکر راحیلہ حمیددرانی کا کہناتھا کہ صوبےمیں خواندگی کی شرح 44فیصد ہے،جو کہ دیگر صوبوں کےمقابلے میں کم ہے۔ انہوں نے اس موقع پر غیررسمی تعلیمی پالیسی کےاجراء کو سراہتے ہوئے اسے مثبت قدم قراردیا۔

اسپیکربلوچستان اسمبلی کاکہناتھا کہ غیررسمی تعلیمی پالیسی سےتعلیم سےمحروم افراداوربچوں کوعلم حاصل کرنےکاموقع ملےگا،ان کا یہ بھی کہناتھا کہ شرح تعلیم میں اضافہ کےلئے سب کو اپنا کردار ادا کرناہوگا۔

تقریب سے خطاب میں ’جائیکا‘ کےنمائندے کاکہناتھا کہ بلوچستان میں غیررسمی تعلیمی پالیسی کےآغازپرخوشی ہے،اس کےاجراء میں دیگرمتعلقہ اداروں کاکردارقابل ستائش ہے،انہوں نے پالیسی پر عملدرآمد کےحوالےسے جائیکا کی جانب سے منصوبےمیں بھرپور تکنیکی تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

اس موقع پر پالیسی کے مختلف نقاط پر بھی روشنی ڈالی گئی اور شرکاء کو بتایا گیا کہ تعلیمی پالیسی پر جاپانی ادارے جائیکا کےتعاون سےعملدرآمدکیاجائےگا اوراس پالیسی سےتعلیم سےمحروم افراداوربچوں کامستقبل روشن کرنے میں مدد ملےگی،پالیسی کےاہم مقاصد میں شرح تعلیم کو64فیصدتک لےجانابھی شامل ہے۔

تعلیمی پالیسی کےاجراء کےحوالےسے ماہرین کو امید ہے کہ صوبے میں تعلیمی صورتحال میں بہت حد تک بہتری آسکتی ہے ،لیکن اس کےلئے بہرحال تمام اسٹیک ہولڈرز کو سنجیدگی، خلوص دل اورسچی نیت سے کام کرناہوگا۔بصورت دیگر محض پالیسی کے اجراء،،اس حوالے سے دعووں اور بیانات سےتبدیلی اوربہتری کے خواب کو تعبیر نہیں مل سکتی اور بلوچستان میں تعلیمی شعبے میں ترقی کا خواب صرف خواب ہی رہےگا۔

مزید خبریں :