23 مئی ، 2012
کوئٹہ… چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دئیے ہیں کہ باربارمطلع کرنے کے باوجود حکومت آئین کے آرٹیکل 148پر عمل نہیں کررہی حکومتیں آتی جاتی ہیں ہمیں ملک کو بچانا ہے جبکہ وزیراعظم کو اپنے منصب کے مطابق توقعات پر پورا اترنا چاہئے، اگر وزیراعظم نے اپنا کام نہ کیا تو آئین اپنا کام کرے گا، جس پر ایمرجنسی بھی لگ سکتی ہے یا کچھ اور۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں بلوچستان میں امن و امان اور لاپتہ افرادسے متعلق کیس کی سماعت دوران دئیے، عدالت میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری خوشنود لاشاری اور سیکرٹری دفاع نرگس سیٹھی کے علاوہ دیگر حکام بھی موجودتھے، چیف جسٹس نے دوران سماعت خوشنود لاشاری کو مخاطب کرکے کہا کہ صوبے میں ابتر صورتحال ہے اور آئین کے مطابق کوئی ایکشن نہیں ہورہا،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے آئی ایس آئی، ایم آئی اور ایف سی پر لوگوں کو لاپتہ کرنے اور لاشیں پھینکنے کا الزام ہے، جبکہ صوبے میں مذہبی ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے، علماء کو مارا جارہا ہے اور پولیس بے بس ہے، بلوچستان کی صورتحال پر نوٹس کے باوجود کوئی جواب نہیں دے رہا، حکومتیں آتی جاتی ہیں ہمیں ملک کو بچانا ہے اور اگر یہ وقت ہاتھ سے نکل گیا توملک سنگین صورتحال سے دوچار ہوسکتا ہے جس طرح کچھ سالوں قبل ہوا تھا، اس پر وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے جواب دیا کہ حکومت نے آغازحقوق بلوچستان پیکیج شروع کیاجس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صوبے بھرمیں چلے جائیں وہاں دیکھیں کہ ترقی کی کیا صورتحال ہے جس گھر میں آگ لگی ہوئی ہے وہاں پہلے آگ بجھاتے ہیں پھر مرمت ہوتی ہے، مگر وفاقی رویہ ہے کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ استعفیٰ دے دوں گا دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان کے کئی علاقوں میں ترانہ نہیں پڑھا جارہا، عدالتوں کا کام حکومت کو بتانا ہے ہم بلوچستان کے لئے تمام ضروری کام چھوڑ سکتے ہیں، سماعت کے دوران بنچ کے دوسرے رکن جسٹس خلجی عارف نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ ہم بلوچستان کے مسئلے کو کیسے حل کرسکتے ہیں یہ ملک کا برننگ ایشو ہے؟؟ کیا یہ اچھا لگتا ہے کہ لوگ اداروں پرانگلیاں اٹھائیں اور اس ادارے پر الزامات عائد کئے جارہے ہیں جس کے لوگ قربانیاں دے رہے ہیں، جسٹس خلجی عارف نے یہ بھی کہا کہ ہم اس آگ پر اپنے حصے کا پانی ڈال رہے ہیں۔