17 اگست ، 2016
محکمہ صحت سندھ کی جانب سے صوبے میں قائم لیبارٹریوں کو ریگولیٹ کرنے کے لئے کوئی ادارہ قائم نہیں کیا گیا جس کے باعث صوبے میں جابجا غیر معیاری لیبارٹریاں قائم ہوگئی ہیں ۔
ذرائع کے مطابق ریگولیٹری بادی نہ ہونے کی وجہ سے لیبارٹری کھولنے کےلئے کسی لائسنس یا معیار کی ضرورت نہیں پڑتی نتیجتاً جس کا دل چاہتا ہے وہ لیبارٹری قائم کر لیتا ہے ۔
ذرائع کے مطابق صوبے کے سرکاری ونجی اسپتالوں کے گردنواح میں درجنوں غیر معیاری لیبارٹریاں قائم ہیں صرف کراچی کی گلیوں و مضافاتی علاقوں سرجانی ٹاؤن ، نیو کراچی، ملیر، لانڈھی ، کورنگی ، بن قاسم ،ابراہیم حیدری، کیماڑی ، شیر شاہ ، بلدیہ ٹاؤن، قائد آباد ، اسٹیل ٹاؤن ودیگر میں اس وقت ایک ہزار سے زائد لیبارٹریاں موجود ہیں جن میں سے بیشتر چھوٹی چھوٹی دکانوں میں قائم کی گئی ہیں ۔
ان لیبارٹریوں میں پیتھالوجسٹ نہیں ہوتے جبکہ عملہ بھی غیر تربیت یافتہ ہوتا ہے مذید براں غیر معیاری کٹیں استعمال کی جاتی ہیں جن سے درست رپورٹس سامنے نہیں آپاتیں اور ان لیبارٹریوں کی رپورٹس پر ماہرین صحت عدم اعتماد کرتے ہیں لیکن غریب عوام گھر کے قریب ہونے پر انہی لیبارٹریوںسے رجوع کرتے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق گلی محلے کے ڈاکٹر انہی رپورٹس کی روشنی میں علاج شروع کر دیتے ہیں جو اکثر وبیشتر درست نہیں ہوتیں جس سے بیماری کی تشخیص نہیں ہوپاتی اور مریض روبہ صحت نہیں ہوتے لیکن محکمہ صحت سندھ اس سلسلے میں کوئی اقدامات نہیں کر رہا ۔
اس سلسلے میں سیکریٹری صحت سندھ احمد بخش ناریجو کا کہنا تھا کہ صوبے میں سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی لیبارٹریوں کی مانیٹرنگ کا کام کرتی ہے ۔ سیکریٹری سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی ڈاکٹر زاہد حسن انصاری کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کا کام صرف بلڈ بینکوں کی نگرانی کرنا ہے جو ہم کر رہے ہیں ۔