30 مارچ ، 2017
فاٹا باجوڑایجنسی، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، کرم ایجنسی، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور فرنٹیئر ریجنز(ایف آرز) پر مشتمل ہے، فاٹا کی سرحد افغانستان کے 5صوبوں سے ملتی ہے، باجوڑ کی سرحد افغانستان کے صوبہ کنڑ جبکہ مہمند ایجنسی اور خیبر ایجنسی کی سرحدیں افغان صوبے ننگر ہار سے ملتی ہیں۔
اسی طرح کرم ایجنسی کی سرحدیں افغانستان کے صوبہ خوست اور پکتیا سے، شمالی وزیرستان کی سرحد بھی افغانستان صوبے خوست سے جبکہ جنوبی وزیرستان کی سرحد افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے ملتی ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے، ان سفارشات کے تحت قبائلی علاقہ جات کو ضروری اصلاحات کے بعد 5برس کے عرصے میں خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا جائے گا، کابینہ نے جن اصلاحات کی منظوری دی ہے ان میں فاٹا کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کی سفارش کے ساتھ قبائلی قانون ایف سی آر کے خاتمہ کے لیے آئینی اصلاحات کی تجویز دی گئی ہے۔
دیگر اصلاحات میں این ایف سی میں فاٹا کے لیے 3فیصد حصہ مختص کرنے جبکہ قبائلی علاقہ جات کی ترقی کے لیے ایک 10سالہ منصوبہ بھی شامل ہے، اس کے علاوہ فاٹا میں جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد اور فاٹا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
اصلاحات میں قبائلی علاقہ جات میں سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے بنچ قائم کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔
سفارشات میں کہا گیا ہے کہ ’’قبائلی علاقوں میں تعینات فوج کے انخلاءکے لیے لیویز میں 20 ہزار مقامی افراد کو بھرتی بھی کیا جائے گا‘‘۔
کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’’وقت آگیا ہے کہ قبائلی عوام کو بھی قومی دھارے میں لایا جائے جس سے ان کی سالہا سال سے جاری محرومیوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا، وزیر اعظم نے گزشتہ سال فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا تھا اورمشیر امورخارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے تمام قبائلی ایجنسیوں کے دورے کے بعد ایک رپورٹ تیار کی تھی جسے وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا‘‘۔
وزیراعظم کی طرف سے اصلاحاتی کمیٹی کو ہدایت کی گئی کہ فاٹا کے تمام اسٹیک ہولڈرز اور اصلاحات کے مخالف سیاسی جماعتوں جے یوآئی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی مشارت سے فیصلہ کیا جائے جس پر سب متفق ہوں۔
مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے فاٹا ریفارمز کمیٹی کے ارکان کے ساتھ میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ملک میں مردم شماری کے بعد آئندہ عام انتخابات میں فاٹا کے عوام صوبہ خیبر پختون خوا اسمبلی کے لیے اپنے نمائندوں کا انتخاب کر سکیں گے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ان علاقوں میں رائج ایف سی آر کے قانون کو ’رواج سسٹم‘ کی جگہ تبدیل کردیا جائے گا اور یہ کام مرحلہ وار ہوگا‘‘۔
سرتاج عزیز کے مطابق ’’اس نظام کی نگرانی ایک جج کرے گا اور اگر کوئی نئے نظام کے تحت ہونے والے فیصلے سے مطمئن نہ ہوا تو وہ اعلیٰ عدالتوں یعنی پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتے ہیں‘‘۔
سرتاج عزیز نے بتایا کہ ’’وفاقی کابینہ کی کمیٹی کی طرف سے پیش کردہ سفارشات کو منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ 5سال کے دوران ان علاقوں کے مالی اور سیکیورٹی معاملات کی نگرانی وفاقی حکومت کرے گی‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’حکومت ان علاقوں میں 20 ہزار کے قریب لیویز کے اہلکار بھرتی کرے گی جسے پولیس کے اختیارات حاصل ہوں گے تاہم 5سال کے بعد صوبائی حکومت فیصلہ کرے گی کہ وہ لیویز کو پولیس کے محکمے میں ضم کرتی ہے یا پھر اس کو برقرار رکھتی ہے‘‘۔
فاٹا میں اصلاحاتی عمل کے حوالے سے قبائلی عوام مختلف قسم کی تبدیلی کا مطالبہ کررہے ہیں، بعض قبائلی فاٹا کو الگ صوبہ بنانے یا کونسل کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں، فاٹا کو الگ صوبہ بنانے یا آزاد کونسل کے قیام کے بارے میں باجوڑ ایجنسی کے رہائشی عرفان کہتے ہیں کہ ’’ قبائلی علاقے بلوچستان تک پھیلے ہوئے ہیں، ان کو وسائل کون دے گا؟ بعض قبائلی مطالبہ کریں گے کہ ہیڈکوارٹر خیبر ایجنسی ہو، بعض کہیں گے کہ مہمند ایجنسی ہو، ہم صوبے میں ضم ہوجائیں تو بہتر ہوگا’’۔
باجوڑ ایجنسی کے خان محمد فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے حق میں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’’الگ صوبہ بننے سے قبائل اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے، مستقبل میں ہم خیبر پختونخوا سے الگ ہونے کا مطالبہ کریں گے اور اس لیے بہتر ہے کہ ہم ابھی سے ہی فاٹا کو الگ صوبہ بنائیں تاکہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں‘‘۔
کرم ایجنسی کے رہائشی شکیل کا کہناہے کہ ’’فاٹا کے تمام دفاتر پشاور میں ہیں، پختونخوا کے رسم و وراج ایک جیسے ہیں اور اس میں کوئی فرق نہیں، اچھی بات یہ ہوگی کہ ہم خیبر پختونخوا کے ساتھ شامل ہوجائیں کیونکہ ہمارا کلچر پشاوری عوام کے ساتھ ملتا جلتا ہے‘‘۔
کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی کے مطابق ’’کے پی کا پہلے سے سیٹ اپ موجود ہے اور حکومت جب چاہے فاٹا کو میں ضم کیا جاسکتا ہے، کے پی میں ضم ہونے کی صورت میں وہ تمام حقوق فاٹا کو بھی مل جائیں گے جو ملک کے دیگر علاقوں کو حاصل ہیں‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’فاٹا میں ضم ہونے سے فاٹا کے عوام کو نا صرف صوبائی اسمبلی میں نمائندگی مل جائے گی بلکہ ایف سی آر فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن سے بھی نجات مل جائے گی‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر فاٹا کے پی میں ضم نہ کیا گیا تو اس علاقے میں فاٹا گڈ گورننس ریگولیشن (ایف جی جی آر) نافذ کیا جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قبائل کی اکثریت کے پی میں شمولیت چاہتے ہیں‘‘۔
ایک قبائلی ملک کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے انصاف اور جمہوریت کو قریب سے دیکھا ہے اور سیاسی پارٹیوں کا کردار بھی ہم نے دیکھا ہے، سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت نہیں ہے، پارٹی انتخابات نہیں ہوتے، عدالتوں میں مقدمات برسوں چلتے ہیں اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے جبکہ قبائل کے فیصلے فوری ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ یہ مسئلہ بات چیت سے حل ہو، فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کریں تو روایات اور رسم و رواج ختم ہوجائیں گی، انصاف کی فراہمی کی بات کریں تو ہم اس جگہ بھی نہیں پہنچ سکیں گے جہاں سے جلد انصاف کی توقع ہو‘‘۔
اصلاحاتی کمیٹی قبائلی کو عوام سے ملنا اور ان کی رائے جاننا چاہئے، اگر قبائلی عوام صوبے میں ضم ہونا چاہتے ہیں تو ضم ہوجائیں لیکن اگر لوگ موجودہ نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کیلئے ضروری ہے کہ نظام کو بہتر بنایا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو فاٹا کیلئے شمالی علاقہ جات کی طرز پر آزاد اور خود مختار کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے لیکن آزاد کونسل کا قیام بھی پولیٹیکل ایجنٹ کی مرضی پر نہ ہوبلکہ قبائلی عوام کی مرضی پر ہو۔
اورکزئی ایجنسی کے رہائشی عظمت بنگش علیحدہ صوبے کے حق میں ہیں جبکہ مہمند ایجنسی کے عرفان بہادر کا کہنا ہے کہ ’’قبائلی علاقوں میں لوگ شرعی عدالتوں کی حمایت کرتے ہیں اور خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے مخالف ہیں‘‘۔
جمرود کے ’’گل شیر آفریدی کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا اور فاٹا کے عوام کے رسم و رواج مشترک نہیں ہیں‘‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’قبائلی عوام کو بھی اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ملنی چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب قبائلی اپنا ووٹ کا حق استعمال کریں گے، اس مسئلے کو افہام تفہیم سے حل کرنا ہی بہتر ہے‘‘۔