22 اپریل ، 2017
مشعال خان کو نہ میں جانتا تھا، نہ ہی میری اس سے کبھی ملاقات ہوئی۔ہاں، اس کے والد سے ملاقات رہی ہے کیونکہ ہم دونوں شاعر ہیں، اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میں اور مشعال کے والد دوست تھے ۔
اپریل کی 13 تاریخ کو مجھے ایک صحافی دوست کا فون آیا، وہ وائس آف امریکا میں کام کرتا ہے، اس نے بتایا کہ علاقے میں ایک بڑا سانحہ ہو گیا ہے، ایک نوجوان پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے قتل کر دیا گیا ہے، میں ایسے الزامات کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، پہلے بھی ایسے ہی الزامات کی آڑ میں ذاتی دشمنیاں نکالی گئی ہیں، میں نے چند فون کالز ملائیں اور میرا شک درست ثابت ہوا۔
مجھے بتایا گیا ’’لالہ جی، لڑکا بہت لائق تھا‘‘، ’’وہ کالج کی انتظامیہ کی کرپشن کے خلاف تھا‘‘، ’’اس پر توہین مذہب جھوٹا الزام لگا کر مارا گیا ہے‘‘۔
یہاں میں کچھ حقائق واضح کرنا مناسب سمجھتا ہوں، میرا خیال ہے کہ میں بھی ایک باعمل مسلمان ہوں، پانچوں نمازیں پڑھتا ہوں، ہر رات درود شریف کا 500 بار ورد کرتا ہوں، مجھے اپنے مذہب سے، اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ہے، ایک اور بات یہ کہ میں 3بچوں کا باپ ہوں، میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔
میں نے فیصلہ کیا کہ میں مشعال کا جنازہ ضرور پڑھنے جاؤں گا، میں نے اپنی پستول ساتھ رکھ لی کیونکہ مجھے لگ رہا تھا کے وہاں حالات خراب ہو سکتے ہیں، پھر میں کچھ دوستوں کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھا اور مشعال کے گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔
مشعال کا گھر تقریباًخالی تھا، پرسہ دینے لوگ نہیں آ رہے تھے کیونکہ محلے کے ایک مولوی نے لاؤڈ اسپیکر پہ اعلان کیا تھا کہ جس نے مشعال کا جنازہ پڑھا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔
میں نے اس اعلان کی پروا نہیں کی کیوں کہ میں جانتا تھا کہ مشعال ایک باعمل اور باکردار مسلمان تھا۔
اپنے ہاتھ میں بندوق تھامے ہوئے میں نے دوستوں کو اشارہ کیا، ہم نے صف بندی کی، ہاتھ باندھے اور سر جھکا لیا، پھر امام کے انتظار میں یونہی کھڑے رہے، مایوسی کے عالم میں مشعال کے والد نے شاہ ولی نامی ایک شخص سے امامت کی درخواست کی، جہاں سب ساتھ چھوڑ گئے، وہاں اس اجنبی نے ساتھ نبھایا۔
جب نماز شروع ہوئی تو صف میں صرف چار لوگ کھڑے تھے۔
ایک فقیر یہ سب دیکھ رہا تھا، اللہ جانے اس کے دل میں کیا خیال آیا کہ وہ یکدم اٹھا اور ننگے پائوں سڑک پہ بھاگتے ہوئے لوگوں کو آوازیں دینے لگا کہ گھروں سے نکلو اور مشعال کا جنازہ پڑھو،آہستہ آہستہ لوگ جمع ہونے لگے، رش بڑھتا گیا صفیں بنتی گئیں، لیکن مشعال کے جنازے میں اس سے بہت زیادہ لوگوں کو ہونا چاہئے تھا، وہ نا صرف ایک با عمل اور سچاعاشق رسول تھا بلکہ باکردار انسان بھی تھا، اس کی ذات سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچی تھی۔
مجھے سے کہا جا رہا ہے کہ تمہارے قدم بڑھانے سے لوگوں کو حوصلہ ملا کہ وہ بھی مشعال کے گھر والوں کو سہارا دیں، ممکن ہے کہ یہ بات سہی ہو اور شاید نہیں، میں تو صرف ایک جنازہ پڑھنے گیا تھا اور وہ میں نے پڑھ لیا۔