29 اپریل ، 2017
یہ اس سال 10فروری کی بات ہے،پاکستان سپر لیگ سیزن ٹو کی شروعات کے اگلے دن خالد لطیف اور شرجیل خان کو دبئی سے کراچی آنے والے جہاز میں چڑھا دیا گیا۔اس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے بڑوں کی جانب سے بلند و بانگ دعوؤں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
فروری رخصت ہوا،مارچ میں بھی کچھ نہ ہوا،اب تو اپریل بھی رخصت ہو رہا ہے۔خالد اور شرجیل کا کیس حل نہیں ہو سکا ہےالبتہ دراز قد محمد عرفان جنھیں مشکوک ہوتے ہوئے پورا پی ایس ایل کھیلنے دیا گیا انہوں نے چند ملاقاتوں ہی میں پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کے سامنے ہتھیار ڈال کر اگر کہا جائے گھاٹے کا سودا نہیں کیا تو غلط نہ ہو گا۔
اگر آپ کا سیدھا سوال ہے ،کیسے تو آسان جواب ہے۔عرفان کی چھ ماہ کی پابندی اکتوبر میں ختم ہوگی۔ْپاکستان ڈومیسٹک سیزن کا تب ہی آغاز ہوگا۔عرفان نے اس سال پورا پی ایس ایل کھیلا ،اگلا بھی کھیلیں گے۔مالی نقصان تو فاسٹ بولر کا دکھائی نہیں دے رہا،البتہ پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ سینہ ٹھوک کر عرفان کی معافی کو اپنی کامیابی کا تمغہ قرار دے رہا ہے۔
عموماً لوگ افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ جب ہمارے نامی گرامی کرکڑز کو پی سی بی خزانے سے لاکھوں روپے ملتے ہیں ،عوام کی جانب سے توجہ ملتی ہے،تقاریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا جاتا ہے،چند دن میں ایک معمولی لڑکا ٹیم پاکستان کا حصہ بن کر سب میں مشہور ہو جاتا ہے تو یہ لالچ اور بد نامی کا داغ اپنے گلے کا طوق بنانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔
کہانی لمبی ہے قصہ مختصر عرض کرتا چلوں ،گزشتہ ہفتے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرما رہے تھے،سزا یافتہ کرکڑز اور سابق چیئر مینوں کی سب بات کرتے ہیں ،کسی کی نظریں پی سی بی کے ان افسران پر کیوں نہیں پڑتیں جو دو پٹی کی چپل پہن کر پی سی بی میں داخل ہوئے تھے،آج لاکھوں روپے کی گاڑیاں ان کے زیر استعمال ہیں۔
بات صرف راشد لطیف کے بیان تک محدود نہیں ،پی سی بی میں ایک مافیا ہے،سزا یافتہ اور جواری کرکڑز الگ یہ لوگ بھی دونوں ہاتھوں سے مال بنانا رہے ہیںجس بھارتی بکی انو بھٹ سے مراسم نے ٹیسٹ کرکڑ دانش کنریا کا کیرئیر وقت سے پہلے ختم کر دیا۔
پی سی بی کے کئی افسران اس سے رابطے میں رہے،ایسا دانش کنریا کئی بار ریکارڈ پر کہہ چکا ہے،ملک جسٹس (ر) قیوم رپورٹ میں سامنے آنے والے نام آج بھی اس لئے مشکوک ہیں کہ انہوں نے سلمان ،آصف اور محمد عامر کو ہمیشہ واپس لا نے کی بات کی،چند دن پہلے میچ فکسنگ کے خلاف اپنے کیرئیر کو داو پر لگا نے والے ٹیسٹ وکٹ کیپر زوالقرنین نے یہ انکشاف کیا کہ ڈومیسٹک کرکٹ کے میچ بھی فکسڈ ہوتے ہیں۔
اصل کہانی یہ ہے کہ محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ معاشرے کے بے ہنگم ٹریفک کی طرح پاکستان کرکٹ میں سب چل رہا ہے،بس جب کوئی ٹریفک پولیس والے کے ہتھے چڑھ گیا۔اس کا چلان بھی ہو گا اور ممکن ہے سزا بھی مل جا ئے،بصورت دیگر نہ یہاں کوئی دیکھنے والا ہے اور نا کوئی روکنے والا،جب پی سی بی میں تقرریاں سفارش پر ہوں گی،جب من پسند لوگوں کو نوازا جا ئے گا تو لاقانونیت کو روکے گا کون؟البتہ بہت چھوٹے پیما نے پر سہی شروعات ہو چکی ہیں ۔
اسلام آباد کی عدالت میں ساتویں کلاس کے طالبعلم سدیس الفت نے جونیئر سلیکشن کمیٹی کے چیف سلیکٹر باسط علی کے خلاف مقدمہ درج کرادیا کہ انھیں پرفارمنس دکھا نے کے باوجود کیمپ میں نہیں بلایا گیا۔
عدالت کے حکم پر بچے کو کیمپ میں شامل بھی کیا گیا۔پی سی بی کے لئے یہ شرم کا مقام ہے جن لوگوں کو انہوں نے سلیکشن کے لئے منتخب کیا وہ سلیکشن کے کام کے علاوہ سب کر رہے ہیں۔مطلب سلیکشن کمیٹی انصاف کے ترازو کو چھوڑ کر کس بنیاد پر ٹیمیں منتخب کر رہی ہے،یہ ماجرا ۔۔بھی اب بہت جلد حل ہو جا ئے گا۔