خصوصی رپورٹس
02 مئی ، 2017

پانامہ لیکس،کیا یہ مسئلہ صرف شریف خاندان تک ہی محدود تھا؟

پانامہ لیکس،کیا یہ مسئلہ صرف شریف خاندان تک ہی محدود تھا؟

طویل انتظار کے بعد پانامہ لیکس کیس کا فیصلہ سامنے آیا تو سوال یہ اٹھا کہ 20 اپریل کو’تین .دو کے ‘اختلاف کے ساتھ آنے والے اس فیصلے پر کس کی جیت ہوئی اور کس کی ہار؟ اس سوال کا جواب یہی دیا جاسکتا ہے کہ یہ ملکی تاریخ کا ایک ایسامنفرد فیصلہ ہے کہ جس میں دونوں فریقین مٹھائیاں کھا رہے ہیں۔

فیصلے کے مطابق نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں پر منی لانڈرنگ کے حوالے سے نیب، ایف آئی اے،اسٹیٹ بینک،ایس ای سی پی، ایم آئی اور آئی ایس آئی پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی جائے گی جسے60دن میں اپنا کام مکمل کر نا ہوگا۔۔۔یوں پانامہ لیکس پر فیصلہ آنے کے با وجود ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔

پانامہ لیکس کے اس فیصلے کے مستقبل پر کیا اثرات سامنے آئیں گے یا جے آئی ٹی60دنوں میں کیسے اپنا کام مکمل کرے گی یہ سب واقعاتی باتیںہیں۔بنیادی بات یہی ہے کہ بحیثیت قوم ہم لوگوں نے پانامہ لیکس کے انکشافات کا فائدہ اٹھانے کی بجائے اس معاملے کو مکمل طور پر سیاست کی نظر کر دیا۔

پانامہ لیکس کا اصل معاملہ تھا کیا اور ہماری سیاسی جماعتوں ، میڈیا، اینکرز اور تجزیہ نگاروں نے اس انتہائی اہم مسئلے کو کیسے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کر نا شروع کر دیا۔ کیا یہ مسئلہ صرف اور صرف شریف خاندان تک ہی محدود تھا؟

پانا مہ لیکس میں پا کستان کے حکمراں خاندان سمیت دیگر کئی سیا ستدانوں ، کا روبا ری حضرات حتیٰ کہ ججوںکا نا م بھی سامنے آیا ۔پاکستانی اشرافیہ کی جانب سے جا ئز یا نا جا ئز طور پر بنائے گئے سرما ئے کو پا کستان سے با ہر رکھنے کی روایت بہت پرانی ہے۔سن2015 کے وسط ہی میں قومی اور بین اقوامی اخبا رات نے انکشاف کیا کہ دوہزار تیرہ چودہ میں دبئی میں رئیل اسٹیٹ یا پر اپرٹی کے شعبوں میں پاکستانیوں کی جانب سے 16ارب درہم سے بھی زائد کی سرما یہ کا ری کی گئی۔

معاشی ماہرین کے مطا بق نائن الیون کے بعد مغربی ممالک اور خاص طور پر امریکہ کے بینکوں میں بھا ری رقوم کی منتقلی اور اخراج پر جا نچ پڑتال کا عمل سخت بنا دیا گیا ہے ایسے میں دنیا بھر سے لو ٹا گیا کالا دھن اس وقت پا نا ما سمیت ویسٹ انڈیز، کیربین کے جزیروں، لکسمبرگ ، سنگا پور، جنو بی افریقہ، ما ریشس اور متحدہ عرب امارات(دبئی) جیسے ممالک میں مختلف ناموں کی جعلی یا فرضی کمپنیوں کے نا م پر منتقل کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح سوئس بینک بھی قابل ذکر ہیں۔ نائن الیون کے بعد اور خاص طور پر 2009کے بعد سے امریکہ اور یو رپین یو نین کی جانب سے سوئز رلینڈ کے بینکوں پر یہ دبا ئو رہا کہ وہ عالمی ٹیکس انتظامیہ کو خفیہ اکا ئونٹس تک رسائی کے حصول میں مدد فراہم کریں۔

2010 میں نیا سوئس قا نون سامنے آیا ہے جس کے مطابق اب سوئس حکومت کو ایسی رقم یا اثاثوں کے با رے میں معلومات فراہم کرنے کی اجازت ہو گی کہ جن کوغیر قانونی ذرائع سے حا صل کرکے سوئس بینکوں میں ڈپازٹ کر وایا گیا ہے۔یوں اب اگر پا کستان کی حکومت چا ہے تو سوئزر لینڈ کے بینکوں میں پا کستان سے لو ٹی گئی دولت اور اثا ثوں کے بارے میں نہ صرف معلومات حا صل کر سکتی ہے بلکہ یہ ثا بت کر کے کہ یہ رقم غیر قا نونی طریقے سے بنا ئی گئی ہے اس رقم کو واپس لینے کیلئے قانونی چا رہ جوئی بھی کر سکتی ہے۔مگر ایسا سوچنا بھی حما قت ہو گی کہ ہما رے حکمراں قوم کی لو ٹی ہو ئی دولت واپس لا نے کیلئے ٹھوس اقدا مات اٹھا ئیں گئے۔ اس وقت پا کستان کی شاید ہی کو ئی ایسی سیا سی جما عت ہو کہ جس کی اعلیٰ سطحی قیا دت میں سے کسی نہ کسی کا سرما یہ بیرون ممالک میں نہ پڑاہو۔

اصولی طور پر تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ اپوزیشن جما عتیں اس عالمی مالیاتی اسکینڈل کو بنیاد بناتے ہوئے پورے ملک میں ایک ایسی تحریک بر پا کرنے کا اعلان کرتیں کہ جس کے تحت یہ مطالبہ کیا جا تا کہ پاکستانی اشرا فیہ کے ہر حصے کو بیرون ممالک میں رکھے گئے اثاثوں کا جواب دینا ہو گا اور کالا دھن ثابت ہو جانے پر ان اثاثوں کو واپس لا نا ہو گامگر بد قسمتی سے ایسی سیاسی جما عتوں نے اس نظام کی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی پوری قوت صرف اور صرف نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کرنے تک ہی صرف کر دی۔

نظام کو تبدیل کئے بغیر کسی فرد کو علامتی سزا دے دینے سے مسئلہ جوں کا توں ہی رہتا ہے ۔جب عاصمہ جیلانی کیس میں یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا گیا تو کئی تجزیہ نگاروں نے دعویٰ کیا کہ اس فیصلے کے بعد کبھی مارشل لاء نہیں لگے گا۔جب 1977میں ذوالفقار علی بھٹو کو مارشل لاء لگا کر اقتدار سے بے دخل کیا گیا تو یہ دعوی ٰ کیا گیا کہ اب مستقبل میں کوئی بھی حکومت انتخابات میں دھنا دلی کر نے کا سوچے گی بھی نہیں۔

جب 1988سے1999تک بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں کو کرپشن کے الزامات پر ختم کیا جا تا تو یہ دعویٰ کیا جا تا کہ اب کوئی حکومت کرپشن نہیں کر ے گی۔ان تمام مثالوں سے ثا بت ہو تا ہے کہ افراد اور شخصیات کو علامتی سزائیں دینے سے مسئلہ ختم نہیں ہوتا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ جس نظام کے با عث یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ نظام اپنی جگہ بر قرار رہتا ہے۔افسوس ہم دنیا کے سب سے بڑے مالیاتی اسکینڈل کو بنیاد بنا کر اس نظام میں اصلاح نہ کر سکے ۔

 

مزید خبریں :