Time 18 ستمبر ، 2017
بلاگ

میاں تیرے جانثار

قذافی اسٹیڈیم’’گونواز گو‘‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا اور میں اپنی نشست پر بیٹھا تلملا رہا تھا۔ نواز شریف کے ساتھ اختلاف کے ایک سو ایک دوسرے طریقے ہیں لیکن پاکستان اور ورلڈ الیون کے کرکٹ میچ سے چند منٹ قبل اسٹیڈیم میں موجود ہزاروں تماشائیوں کی طرف سے ’’گونواز گو‘‘ کے نعرے اسپورٹس مین اسپرٹ کی خلاف ورزی محسوس ہورہے تھے ،یوں کھلاڑیوں ا ور تماشائیوں کو اپنی سیاسی رائے رکھنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن کھیل کے میدان میں سیاست نظر نہیں آنی چاہئے۔

کرکٹ کا کھیل پاکستانی قوم کو متحد کرتا ہے اور15ستمبر کو پاکستان اور ورلڈ الیون کے درمیان تیسرے ٹی ٹونٹی کرکٹ میچ میں پوری قوم دہشت گردی کے خوف کے خلاف متحد نظر آرہی تھی۔

دنیا کے سات مختلف ممالک کے کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم نے پاکستان کا دورہ کرکے انٹرنیشنل کرکٹ کی پاکستان واپسی میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یہ سب مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں ہورہا تھا، اس کے باوجود قذافی اسٹیڈیم میں ’’گونواز گو‘‘ کے نعرے کیوں گونج رہے تھے؟

سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کو نااہل قرار دیا جا چکا، نواز شریف وزارت عظمیٰ سے ہٹ چکے، ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بن چکے، نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف احتساب عدالتوں میں ریفرنس دائر ہوچکے اسکے باوجود نواز شریف کے لاڑکانہ میں ’’گونوازگو‘‘ کے نعرے کیوں لگ رہے تھے؟ لاہوریوں کو کس بات کا غصہ ہے ؟ ان کا غصہ کم کیوں نہیں ہورہا؟

قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے مقرر کردہ ایک سمجھدار کمنٹیٹر نے تماشائیوں کو’’گونواز گو‘‘ کا نعرہ لگانے سے روکنے کی بجائے ’’دل دل پاکستان‘‘ گانے کی طرف مائل کیا اور مائیک ہاتھ میں پکڑ کر ورلڈ الیون کے کھلاڑیوں کے حق میں نعرے لگوانے شروع کردئیے۔

تماشائیوں کی طرف سے بھی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا جارہا تھا وہ کچھ دیر کے لئے اپنے میزبان کی خواہش پوری کرتے اور پھر دوبارہ’’گونوازگو‘‘ کی گردان شروع کردیتے۔ میں نے کافی مشاہدے کے بعد اندازہ لگایا کہ یہ نعرہ سب سے زیادہ ان انکلوژرز میں لگایا جارہا تھا جہاں پر تماشائی پانچ سو روپے کا ٹکٹ لے کر آئے تھے۔

کیا یہ تماشائی رائے عامہ کی ترجمانی کررہے تھے؟ بالکل نہیں کیونکہ رائے عامہ جانچنے والی سروے رپورٹوں میں ابھی تک مسلم لیگ( ن) مقبول ترین جماعت ہے۔

اس میچ کے تیسرے دن لاہور میں این اے120کا ضمنی الیکشن تھا۔ الیکشن کے دن صبح میں نے این اے 120کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں کا جائزہ لیا۔ مسلم لیگ (ن) کے ووٹر’’میاں تیرے جانثار بے شمار بے شمار‘‘ کے نعرے لگارہے تھے۔

قذافی اسٹیڈیم بھی لاہور میں ہے اور این اے120بھی لاہور میں ہے۔ ایک ہی شہر کے دو مختلف مقامات دو مختلف تصویریں دکھارہے تھے لہٰذا یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کہ این اے120کے ضمنی الیکشن کا نتیجہ پورے لاہور یا پورے پاکستان کا فیصلہ ہے۔

لاہور میں تین دن کے قیام کے دوران بہت سی کہانیاں سننے کوملیں۔ زیادہ تر کہانیوں میں مریم نواز کا کردار مرکزی تھا۔ ان کہانیوں کی تفصیل پھر سہی لیکن شریف خاندان کے اندرونی اختلافات سے جڑے قصے ہر خاص و عام کی ز بان پر ہیں۔

میڈیا پر کنٹرول اتنا زیادہ ہے کہ اکثر’’حریت پسند‘‘ صحافیوں کی مزاحمت مریم نواز کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی نظر آتی ہے کیونکہ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے اور جب سے مریم نواز لاہور میں اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلارہی تھیں خادم اعلیٰ شہباز شریف زیادہ تر لاہور سے غائب رہے۔

شہباز شریف کو قریب سے جاننے والے کہتے ہیں کہ لاہور میں اصل خبر این اے120کے ضمنی الیکشن کا نتیجہ نہیں بلکہ شہباز شریف کی بے چینی ہے اور اس بے چینی کو پریشانی میں چوہدری نثار نے تبدیل کیا ہے۔

عام تاثر یہ ہے کہ چوہدری نثار جو بھی کہتے ہیں اس میں شہباز شریف کی خاموش تائید شامل ہوتی ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے سے چوہدری نثار اور شہباز شریف کے درمیان کئی معاملات پر اختلاف رائے پیدا ہوچکا ہے تاہم شہباز شریف نے اپنے اختلافات کا کھل کر اظہار نہیں کیا کیونکہ کچھ معاملات پر دونوں میں اتفاق بھی پایا جاتا ہے۔

یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر چوہدری نثار جن خواتین و حضرات کو ناپسند کرتے ہیں ان کے شہباز شریف کے ساتھ بھی معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔ یہ دونوں اپنی جماعت کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی نہ کی جائے تاہم فرق یہ ہے کہ چوہدری نثار نے اپنی جماعت کے اندر کچھ لوگوں سے محاذ آرائی کو’’اعلان‘‘ کی شکل دے دی ہے لیکن شہباز شریف نے ایسا نہیں کیا۔

چوہدری نثار نے سب سے پہلےمریم نواز کو ایک’’بچی‘‘ اور غیر سیاسی‘‘ قرار دیا۔ اس کے بعد انہوں نے وزیر خارجہ خواجہ آصف پر حملہ کیا اور اب وہ خواجہ آصف کے ساتھ ساتھ احسن اقبال کا بھی رگڑا نکال رہے ہیں۔

چوہدری نثار نے گزشتہ دنوں خواجہ آصف کو ملک دشمن قرار دیا اور کہا کہ آرمی چیف دنیا کو ڈو مور کہہ رہے ہیں جبکہ خواجہ آصف اپنے ہی ملک پاکستان کو ڈو مور کہہ رہے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں چوہدری نثار نے خواجہ آصف پر تنقید کے ذریعے سول اور ملٹری قیادت میں اختلافات کا تاثر دیا ہے حالانکہ خواجہ آصف نے آرمی چیف کی دنیا سے ڈو مور کے مطالبے کی سو فیصد حمایت کی تھی۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار سے ان کے اختلافات کی وجہ 2012 میں اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بنا جب چوہدری نثار نے عدالت کے فیصلے کو مسترد کیا اور انکوائری کی مخالفت کی لیکن انہوں نے فیصلے کی تائید کی۔

یہ صرف ایک وجہ ہوسکتی ہے، میمو گیٹ اسکینڈل میں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف درخواست گزار بننے کا فیصلہ کیا تو چوہدری نثار اور جاوید ہاشمی نے مخالفت کی تھی جبکہ خواجہ آصف نے حمایت کی تھی۔

چوہدری نثار نے مشرف کا ٹرائل نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا خواجہ آصف ٹرائل کے حامی تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ خواجہ آصف وہی کہتے ہیں جو نواز شریف چاہتے ہیں لہٰذا چوہدری نثار کی اصل لڑائی خواجہ آصف سے نہیں نواز شریف سے ہے۔

چوہدری صاحب صاف گوئی کے دعویدار ہیں لیکن حکمت کے تحت نواز شریف پر براہ راست تنقید سے گریز کرتے ہیں۔ کبھی مریم نواز کا نام لیتے ہیں کبھی خواجہ آصف کا نام لیتے ہیں۔ چوہدری نثار اگر واقعی ایک اصول پسند انسان ہیں تو نواز شریف کو خدا حافظ کہہ دیں اور 2018 کا الیکشن کسی اور جماعت کے ٹکٹ پر لڑیں یا پھر آزاد امیدوار بننے کی جرأت کریں۔

مریم نواز صاحبہ بھی مرکز اور پنجاب کی حکومتوں کے وسائل استعمال کرکے فوج اور عدلیہ کے خلاف مزاحمت کے دعوے نہ کریں ان کا اصل امتحان اس وقت آئے گا جب وہ ریاستی وسائل کے بغیر الیکشن لڑیں گی اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے سرکاری اشتہارات کی طاقت ان کے پاس نہیں ہوگی۔

چوہدری نثار کو نواز شریف کے نام کے بغیر سیاست کرکے دکھانی ہے اور مریم نواز کو ریاستی اداروں کے وسائل اور طاقت کے بغیر سیاست کرکے دکھانی ہے۔ پتہ چل جائے گا کون کس کا جانثار ہے اور کون کتنے پانی میں ہے۔


یہ کالم 18 ستمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔