12 دسمبر ، 2017
ماڈل ٹاؤن واقعے سے متعلق جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ منظرعام پر آتے ہی سیاست میں گویا ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور ماڈل ٹاؤن میں واقع پاکستان عوامی تحریک کا مرکز، جہاں 2014 میں 14 لوگ جاں بحق ہوئے، اس وقت حقیقتاً سیاست کا گڑھ بن چکا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے رپورٹ سامنے آنے کے بعد سیاسی جماعتوں سے اپنے موقف کی تقویت کے لیے رابطے شروع کیے اور ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے موجودہ حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس کے طرز کا اتحاد بنانے پر آمادگی ظاہر کی، آج کل سیاست دان ڈاکٹر طاہر القادری سے اپنی ملاقاتوں کا شیڈول طے کرنے میں مصروف ہیں۔
7 دسمبر کو آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے ایک وفد کے ہمراہ ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات کی اور انہیں اپنی سیاسی اور اخلاقی حمایت کا یقین دلایا ہے۔
ہفتہ (9 دسمبر) کے روز پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال ڈاکٹر طاہر القادری سے ملے، جبکہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الہی نے بھی ایک وفد کے ہمراہ ڈاکٹر طاہر القادری سے اتوار (10 دسمبر) کی شام کو ملاقات کی۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی ہدایت پر شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین سمیت 6 رکنی وفد مستقبل کی حکمت عملی کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری سے حتمی مذاکرات کر چکا ہے، اب اس کے بعد فائنل راؤنڈ عمران خان خود کھیلیں گے۔
اتوار کے ہی روز عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی پاکستان عوامی تحریک کے مرکز پر حاضری دی اور علامہ طاہر القادری کو مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
تمام سیاسی جماعتوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کو یقین دلایا ہے کہ وہ باقر نجفی رپورٹ کی روشنی میں وفاقی اور پنجاب حکومت کے زمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی میں ان کے ساتھ ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں اگر سڑکوں پر بھی آنا پڑا تو وہ آئیں گے، اس 'یقین دہانی' کے بعد جہاں ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی ٹیم کا 'مورال' مزید بلند ہوا ہے، وہیں پنجاب حکومت اور اس کے حواریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپنی بے گناہی کا یقین دلاتے نظر آتے ہیں۔
پنجاب حکومت کے لیے ایک اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ختم نبوت قانون میں مبینہ تبدیلی اور بعد کی صورتحال میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے استفعے کے مطالبے نے بھی صوبائی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔
دوسری جانب روحانی پیشواء حمید الدین سیالوی کی ناراضگی اور اتوار کے روز پانچ ارکان اسمبلی کے استعفے پیش کرنے پر بھی پنجاب حکومت کا مورال ڈاؤن جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا مورال بلند نظر آتا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس صورتحال میں پنجاب حکومت کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ کیا وہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے نمٹ سکے گی؟ اور رانا ثناء اللہ کے استعفے کے مطالبے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کو اپنے کنٹرول میں کرتے ہوئے دیگر ارکان اسمبلی کو استعفے دینے سے روک پائے گی؟
اگر ایسا ہوگیا تو یہ یقیناً پنجاب حکومت کی بڑی کامیابی ہوگی، لیکن اس کے لیے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے اور صوبائی حکومت کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
عدنان ملک جیو ٹی وی میں سینئر رپورٹر ہیں
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔