مشرف کیخلاف مقدمہ بغاوت میں ایجنسی نے مجھ سے مشاورت کی تھی، عشرت العباد


دبئی(حصہ سوم) سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سابق صدر پرویز مشرف کی رہائی، مائنس الطاف حسین اور سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق اندرونی کہانیاں بیان کرتے ہیں۔

7مارچ 2014 کو جمعہ کے روز گورنرسندھ عشرت العباد اپنی سرکاری رہائش گاہ پر موجود ہیں۔

آپریٹر ان سے رابطہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اسلام آباد سے کسی ایجنسی کا اعلیٰ افسر اُن سے بات کرنا چاہتا ہے ۔ ڈاکٹرعبادبغیر کسی کا نام بتائے معاملے پر بات کرتے ہوئے صحافی کو بتاتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ یہ انٹلیجنس سربراہ ہی ہوسکتے تھے۔ عام سلام دعا کے بعد افسر کہتا ہے،’’ آپ سے ایک اہم اور حساس معاملے پر بات کرنی ہے۔‘‘ گورنر کہتےہیں، ’’ جی کیجئے۔‘‘ 

’’نہیں یہ فون پر نہیں ہوسکتی۔ سر، میں اپنا ایک سینئر اہلکار آپ کے پاس بھیج رہاہوں وہ آپ کو میرا پیغام دے دےگا،‘‘ افسر نے فون پر بات ختم کرتے ہوئے گورنر کو بتایا۔

 گورنر اس سینئر اہلکار کا انتظار کرتے ہیں جسے غالباً اسلام آباد سے ایجنسی کے جہاز پر روانہ ہونا تھا۔ عباد نے یاد کرتے ہوئے صحافی کو بتایا،’’اس وقت مجھے پتہ لگا کہ یہ ایک انتہائی ضروری فون تھا اور کچھ اہم ہورہا ہے یا ہونے جارہا ہے۔‘‘تقریباً رات دوبجے ایک سینئراہلکار گورنر کے سامنے بیٹھتا ہے۔

معاملہ جنرل مشرف کی رخصتی سے متعلق ہے۔ ’’سر، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے سابق چیف جنرل پرویز مشرف کو غداری کے مقدمے کاسامناہے، اُن کے مقدمے کی سماعت 11مارچ کو ہے ہم چاہتے ہیں کہ سماعت کی تاریخ 18مارچ کے بعد ہو، کیونکہ مضبوط قانونی بنیاد بنانے کیلئے وقت بہت کم ہے۔‘‘ 

قانون کے تحت وفاقی حکومت نے ایک اسپیشل کورٹ تشکیل دی تھی جس کی سربراہی سندھ کے ایک جج کررہے تھے۔ ایجنسی ڈاکٹر عباد سے مدد چاہتی تھی اور ان سےآئینی مشورہ لینا چاہتی تھی کیونکہ وہ معاملےکی حساسیت سے آگاہ تھے۔ 

’’میں نے چند ریٹائرڈ ججز اور اعلیٰ وکلاء بشمول ایک چیف جسٹس سے بات کی اور انھیں اپنے مسئلے سے آگاہ کیا اور اُنھیں مشورہ دینے کی درخواست کی۔‘‘ ڈاکٹر عباد تاحال سابق چیف جسٹس کے مشکور ہیں کیونکہ انھوں نے ایک دانشمندانہ مشورہ دیاتھا۔

’’میراخیال ہے کہ مشاورتی عمل میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی شامل تھے۔‘‘ کیا یہ سب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بتائے بغیر ہورہاتھا جنھوں نے خود جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی منظوری دی تھی، یہ میرا سیدھاسا سوال تھا۔ 

سابق گورنر نے جواب دیا،’’نہیں، ایسا نہیں تھا مجھے ایجنسی کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بتایا تھا کہ انھوں نے وزیراعظم نواز شریف سے بات کرلی ہے اور وزیر اعظم نے انھیں اجازت دے دی ہے۔‘‘

 ڈاکٹر عباد نے اہلکار کو بتایا کہ ’’میرے لیے ضروری ہے کہ میں وفاقی حکومت کو بھی اعتماد میں لوں۔‘‘ اہلکار نے جواب دیا،’’ضرور۔‘‘ 11 مارچ کو ٹربیونل کورٹ نے 19 مارچ کی نئی تاریخ دے دی اور پھر 24 مارچ تک اور بالآخر30 مارچ تک ملتوی کردیا۔

 27مارچ کو گورنر سندھ کو ایجنسی کے ایک اعلیٰ افسر کی جانب سے ایک اور ضروری کال موصول ہوئی کہ، ’’ میں ایمرجنسی میں آرہاہوں،‘‘ یہ اس مختصر کال کا نچوڑ تھا۔

 اسی روز کراچی میں ملاقات کے دوران انھوں نے گورنر کو بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف نے ٹربیونل سے ایک واضح فیصلے کامطالبہ کیاہے، انھیں کوئی اعتراض نہیں اور فیصلے میں کچھ مخصوص الفاظ شامل ہونے چاہئیں۔ ہم ججز کو ڈکٹیٹ نہیں کراسکتے کہ فیصلے میں کیا لکھنا ہے کیونکہ یہ اصول کےخلاف ہے تاہم ہم ایک طرح سے دلیل دے سکتے ہیں کہ حمایت میں فیصلہ دینے کے لیے ججز خود غور کرتے ہیں اور اسی کی ضرورت ہے،‘‘۔

 عباد نے انکشاف کیا، ’’میں نے انھیں بتایا کہ میں تمھیں ایک قابل وکیل تجویز کرتاہوں، میں نے جنرل مشرف کے لیے بیرسٹر فروغ نسیم کو تجویز کیا۔ ‘‘ 30 مارچ کو جب مشرف کو عدالت میں پیش ہونا تھا اور اپنے وکلاء سے ملنا تھا، اسی وقت فروغ نسیم بطور سابق صدر کے نئے وکیل اپنے کاغذات عدالت میں پیش کررہے تھے۔ 

سماعت کے بعدفیصلہ جنرل مشرف کےحق میں آیا۔ اب سب نواز شریف کے اشارے کاانتظار کررہے تھے کہ وہ مشرف کو باہر جانے کی اجازت دے دیں کیونکہ انھوں نے وعدہ کیا تھا۔ 

عباد نےیاد کیا،’’جب وہ سب انتظار کررہے تھے اور جنرل مشرف بھی جانے کے لیے تیار تھے، تب وزیرِ داخلہ نے ایجنسی کو ٹیلیفون کال کی کہ مزید دو دن درکار ہیں کیونکہ وزیراعظم نواز شریف معاملے پر اپنی پارٹی کو اعتماد میں لینا چاہتےہیں۔‘‘ 

ڈاکٹرعباد نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی ردِ عمل کے بعد ’’چند لوگوں کاخیال تھا کہ عدالتی فیصلے کی بنیاد پر جنرل مشرف کو ایک چارٹرڈ طیارے کےذریعے بیرون ملک بھیجا جائے لیکن میں نے اس پر اعتراض کیا، میں نے انھیں بتایا کہ اگر آپ یہ کرتے ہیں تو یہ آرمی کی ساکھ اور حتٰی کہ جنرل مشرف کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا، کیونکہ باقی زندگی کے لیے انھیں ایک بھگوڑا قراردے دیاجائےگا اور جب بھی اُن کا ذکر آئے گا تو ہر بار ادارے کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا،‘‘ تمام لوگوں نے اسے تسلیم کیا۔

 معاملہ ایک بارپھر لٹک گیا اور سول ملٹری تعلقات میں عدم اعتماد کی فضاء پیدا ہوگئی۔ عباد یاد کرتے ہیں کہ انھوں نے قانونی عدالت کے ذریعے آگے بڑھنے پر زور دیا تھا۔ بعد میں حکومت نےسپریم کورٹ میں اپیل کی اور بعد میں اس نے جنرل مشرف کوملک چھوڑنےکی اجازت دے دی اور جنرل مشرف چلے گئے۔

 ڈاکٹر فروغ نسیم کی زیر قیادت قانونی جنگ پورے زور سے لڑی گئی۔ عباد سوچتے ہیں کہ اس مرحلے پر وزیرِ داخلہ کافی سمجھ دار اور حقیقت پسندانہ کردار ادا کررہے تھے۔

 ڈاکٹر عشرت العباد نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ’’چوہدری نثار نے ایک بار کہاتھا، میری پارٹی میں میری پوزیشن اسی طرح ہے جیسی آپ کی پارٹی میں آپ کی ہے۔‘‘ 

مائنس الطاف حسین

28 جنوری 2015 کو ایم کیوایم کے ایک لاپتہ کارکن سہیل احمد کی لاش برآمد ہوئی جس کے نتیجے میں الطاف بھائی نے رینجرز اور دوسری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے خلاف ایک اشتعال انگیز تقریر کرڈالی۔

الطاف بھائی کی تقریر کے بعد ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کراچی شہر میں ایک مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال ہوئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ اسٹاک مارکیٹ میں کافی نقصان ہوا اور اسلام آباد میں بیٹھے ملک کے نمایاں لوگ 30 جنوری کو کراچی کی جانب بھاگےہوئے آئے۔

اس دن اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف ایک اجلاس کی صدارت کررہے تھے اس میں عباد، وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی شامل تھے۔

فوج کی نمائندگی اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر، جو اس سے پہلےبطور ڈائریکٹرجنرل رینجرز سندھ خدمات سرانجام دےچکےتھے، کور کمانڈر کراچی نوید مختار، ڈی جی رینجرز سندھ بلال اکبر اور چند دیگر لوگ کررہے تھے۔

اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس غلام حیدر جمالی نے ایم کیوایم کے کارکن سہیل احمد کے قتل پر بریفنگ دی۔ اس اجلاس کے تمام شرکاء نے فیصلہ کیا کہ واقعے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اجلاس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل رضوان نےکہا، ’’اس کے باوجود کہ ایم کیوایم کے کارکن کو آئی ایس آئی یا کسی قانون نافذ کرنےوالے ادارے نے نہیں اٹھایاتھا، تاحال الطاف حسین ہمیں (ملٹری افسران) نشانہ بنا رہے ہیں، یہ قابل قبول نہیں۔

عشرت العباد یاد کرتے ہیں، ‘‘مجھےحقیقت کا اندازہ تھا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کا افسوسناک سانحہ حال ہی میں ہوا تھا اور پوری قوم کے جذبات بھڑک رہےتھے۔ گفتگو میں کسی نے بھی مائنس الطاف کالفظ استعمال نہیں کیاتھا لیکن اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی واضح تھے کہ الطاف بھائی کا یہ رویہ قابلِ قبول نہیں ہے۔‘‘ 

حالات واضح تھے کہ الطاف بھائی اس طرح کی سیاست جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ حتٰی کہ اس وقت میں نےایم کیوایم اور فوج کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کی تھی۔ میں نے ایک دوصفحات پرمشتمل ورکنگ پلان تیار کیا اور الطاف بھائی سے بات کی، فوج کو بھی باخبر کیا گیا۔

اس وقت کے فوجی افسران کافی مدد کرنے والے تھے، عباد نے تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے بتایا۔

آپ نے دوصفحات کا ایک پلان بنایا پھر الطاف بھائی اور فوج کے درمیان حالات کیوں سازگار نہیں ہوئے؟‘‘ یہ میرا سوال تھا۔

جب ہم اس کاغذ پر کام کررہے تھے تو ایم کیوایم کے لندن سیکریٹریٹ سے ایک اور بیان آگیا جس میں مختلف شخصیات کی بے عزتی کی گئی تھی۔ اس کی وجہ سےاُس ورکنگ پیپر کا عمل رُک گیاتھا، عباد نے یاد کیا۔

انھوں نے مزید بتایا، ’’ 4مارچ سے پہلے بھی ایک میٹنگ ہوچکی تھی جس میں رینجرز نے واضح طور پر نشاندہی کرلی تھی کہ نائن زیرو میں جرائم پیشہ عناصر موجود تھے۔ یہ سب اسی میٹنگ میں ایم کیوایم کے رہنماؤں کی موجودگی میں ہوا تھا۔‘‘

اس ماحول میں رینجرز نے 11 مارچ کو نائن زیرو پر ایک ریڈ کی اور 150 افراد کو گرفتار کرلیا اور بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد کرلیا۔ الطاف بھائی کی جانب سے ایک اور بیان آیا جس میں آرمی پر تنقید کی گئی تھی۔ 

عباد نے دوبارہ حالات سنبھالے اور الطاف بھائی نے 18 مارچ کو کارکنوں سے ایک خطاب کیا جس میں انھوں نے آرمی کی تعریف کی اور اعلان کیا کہ 18مارچ کو وہ مسلح افواج کی حمایت میں ایک ریلی نکالیں گے۔ جب الطاف حسین تقریر کررہے تھے، تب عباد کو گورنر ہاؤس میں تقریر کے نکات موصول ہوئے۔

 عباد نے بتایا، ’’میں نے وہ نکات تمام متعلقہ اعلیٰ حکام تک پہنچادیئے۔ ‘‘عباد کہتے ہیں،’’میں نےسکھ کاسانس لیا اور تقریباً آدھی رات کواپنی رہائش گاہ پر واپس آگیا اور اچانک ٹی وی لگایا اور سزائے موت کے مجرم اور سابقہ ایم کیوایم کے کارکن صولت مرزا کو دیکھا۔ اس کے باعث الطاف حسین نے ایک اور اشتعال انگیز تقریر کی اور ہروہ چیز جو ہم تعمیر کررہے تھے وہ ایک شیشے کےگلاس کی طرح بری طرح سے ٹوٹ گئی۔ اس دن الطاف بھائی اور فوج کےدرمیان موجود اعتماد ختم ہوگیا تھا۔‘‘ لہذا ایک طرح سے یہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر ہی تھے جنھوں نے وہ کوشش ناکام بنائی تھی؟ ‘‘ مجھے یقین نہیں ہے،‘‘ عباد نے بظاہر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ پرتنقید سے گریز کرتے ہوئےانکارکیا۔

 کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاک سرزمین پارٹی راحیل شریف، نوید مختار اور بلال اکبر کے ذہن کی پیداوار ہے، انھوں نے انکار کیا لیکن جب میں یہ پوچھنے کیلئے ایک اور سوال کیا کہ کیا یہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کے ذہن کی پیداوار ہے؟ اس پر عباد نے جواب دیا،’’یہ ایک افسوسناک رجحان ہے کہ کسی کے خلاف کچھ بھی ہو یا کوئی بھی ناکامی ہو، اس کا الزام اسٹیبلشمنٹ پرہی لگایا جاتا ہے جب کہ ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ تو پھر پی ایس پی کیا ہے؟ ‘‘ یہ سیاسی میدان میں چائنا کٹنگ ہے،‘‘ عباد نے ہنستے ہوئےجواب دیا۔

 کیا اب الطاف بھائی اور فوج کے درمیان صلح کاکوئی امکان ہے؟ ’’ میری سمجھ بوجھ کے مطابق اس کا امکان نہیں ہے،‘‘عباد نےکہا۔ ان تمام کارکنان کے برعکس جو مختلف وجوہات کی بناپر انھیں چھوڑ گئے، ڈاکٹر عباد ایم کیوایم کے بانی الطاف بھائی کے خلاف ایک بھی لفظ بولنے پرتیار نہیں۔ ڈاکٹر عباد نے مراکشی چائے کی چسکیاں بھرتے ہوئے کہا، ’’میں ایک بھی لفظ نہیں بول سکتا کیونکہ تاحال میرا خیال ہے کہ یہ الطاف بھائی ہی تھے جنھوں نے جو مجھے اقتدار میں لائے اگر رہنما جلاد بھی بن جائے تو بھی وہ رہنما ہی رہتا ہے‘‘۔

 اقتدار سے رخصتی: 

میرے خیال میں 2011 میں ڈاکٹر عباد عملی طور پر پنڈی بوائے بن چکے تھے۔ راولپنڈی کا پاور ہاؤس انھیں سپورٹ کرتا تھا کیونکہ وہ ملکی معیشت کے مرکز کی دیکھ بھال کررہے تھے لیکن ہر شروعات کا اختتام بھی ہوتا ہے اور کوئی بھی کسی بھی پاور ہاؤس کا مستقل رہائشی نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر عباد جنرل راحیل شریف کے قریب آگئے تھے اور ایک طرح سے اُن کا مستقبل راحیل شریف کے مستقبل کے ساتھ جڑا تھا۔ 2016 کے دوران کہیں ڈاکٹر عشرت العباد آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملے اور پوچھا کہ کیا وہ کام جاری رکھیں گے اور ایکسٹینشن لیں گےیا نہیں۔

جنرل راحیل شریف نے عباد کو اُس ملاقات میں بتایا،’’ میں پہلے ہی اعلان کرچکا ہوں کہ میں ایکسٹینشن نہیں لوں گا اور اس پر کاربند ہوں تاہم کچھ نامکمل کام ہیں جو میں جانے سے پہلا کرنے کی کوشش کروں گا لہذا ریٹائرمنٹ کے قریب آتے ہی میں آپ کو بتائوں گا۔‘‘

میں اپنی رخصتی کی حکمت عملی اس طرح بنانا چاہتا ہوں کہ میں آپ کے جانے سے پہلے رخصت ہوجاؤں،‘‘ عباد نے جنرل راحیل شریف کا جواب بتایا۔

اکتوبر2016 کے اختتام پر سب سے طویل عرصے تک کام کرنے والے گورنر نے ٹیلی فون پر جنرل راحیل شریف سے بات کی۔ ’’میں نے اپنی الوداعی ملاقاتیں شروع کردی ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے عباد کو بتایا اور بالواسطہ طور پر کہا کہ وہ ایکسٹینشن نہیں لے رہے۔

اسی دن عشرت العباد نے بھی جانے کی تیاری شروع کردی تھی۔ اقتدار کے ایوانوں میں گورنر اپنے استعفے سے متعلق ایک ماہ پہلے اطلاع دیتے ہیں۔ ڈاکٹرعباد نے اس صحافی کوبتایا،’’9 نومبر کو ایوانِ وزیراعظم کی جانب سے مجھ سے رابطہ کیا گیا اور مجھے مستعفیٰ ہونےکا کہا گیا جس کی میں پہلے ہی تیاری کررہاتھا لہذا میں نے استعفیٰ دے دیا اور اور الوداعی ملاقاتیں کیں اور تب سے میں یہاں دبئی میں ہوں۔‘‘

مزارِ قائد سےدبئی کیلئے روانگی کے موقع پر انھیں جنرل راحیل کی جانب سے الوداعی ٹیلی فونک کال موصول ہوئی۔ آپ پاکستان کے لیے ایک اثاثہ ہیں اور ملک کے لیے آپ کی خدمات کا انکار نہیں کیاجاسکتا۔ ‘‘ راحیل نے کہا۔ عباد یاد کرتے ہیں، ’’ میں نےیہ قیمتی الفاظ زندگی بھرکیلئے محفوظ کرلیے۔‘‘

اقتدار میں رہنے کےطریقے: 

میں یہ جاننے کیلئے بے چین تھا کہ وہ کیا طریقے تھے جو انھوں نے اتنے عرصے تک اقتدار میں رہنے کیلئےاپنائے۔ ڈاکٹرعباد نے سنجیدگی سےمندرجہ ذیل باتیں بتائیں۔

1) جب بھی آپ اقتدار میں ہوں تو طاقت استعمال نہ کریں صرف دماغ استعمال کریں۔ 

2) عاجزی اختیار کریں۔

3) جب بھی آپ کسی کو ہٹانا چاہئے تو اسے بلائیں اور اُسے عزت دیں۔لوگوں کی بے عزتی نہ کریں۔

4) قومی مفادات اپنے ذہن میں رکھیں اور اس حوالے سے راولپنڈی کے ساتھ عزت سے تعلقات بنائیں۔قومی مفادات کی حفاظت کی خاطر اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ کون خوش ہے اور کون ناراض۔

5) ہمیشہ ہر کسی کو مخلص مشورہ دیں چاہے وہ آپ کا باس ہو ، جونئیر ہو اور حتٰی کہ دشمن ہی ہو۔

6) آپ کو دور اندیشی اور ابتداء سے معاملات کی سمجھ ہونی چاہئے۔

7) ایڈمنسٹریشن اور سیاست میں ایک حسین امتزاج ہے۔ یہ ایک فن ہے جس میں آپ کو ماہر ہوناچاہئے کہ کہاں ایڈمنسٹریشن استعمال کرنی ہے اور کہاں سیاست استعمال کرنی ہے، اور کہاں کس تناسب سے دونوں کو استعمال کرنا ہے۔

8) اقتدار کے ایوان میں آخری لیکن سب سے اہم سبق یہ ہے کہ آخر میں انھوں نے خدائی اصول بتایا، لوگوں پر اعتبار کرنا اچھا ہے لیکن اقتدار میں رہتے ہوئے یہ بہتر ہے کہ کسی پر بھی اعتبار نہ کیاجائے۔ 

عباد کے ساتھ گفتگو سے انکشاف ہوا کہ وہ اور بھی بہت کچھ جانتے ہیں اور وہ بہت سے رازوں کے امین ہیں کیونکہ وہ گورنر سندھ کے طور پر انھوں نے ملک کی حالیہ تاریخ کے اہم اور حساس معاملات سے نمٹنتے ہوئے ایک خاموش آپریٹر کے طور پر کام کیا۔

 اس رپورٹر کویہ بھی پتہ لگا کہ اسٹیبلشمنٹ کے چند اہم عناصر اُن سے تاحال رابطے میں ہیں بظاہر وہ باہر ہیں لیکن داخلی طورپر اندر ہیں۔

مزید خبریں :