30 جنوری ، 2018
کراچی: نقیب اللہ قتل کیس میں نامزد معطل ایس ایس پی راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے سپریم کورٹ کی تین روز کی مہلت ختم ہوگئی لیکن پولیس ملزم کو گرفتار نہ کرسکی۔
13 جنوری کو کراچی کےعلاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک پولیس مقابلے کے دوران نقیب اللہ محسود کو ہلاک کیا گیا جس کے بعد اس وقت ایس ایس پی ملیر کے عہدے پر تعینات راؤ انوار نے نقیب اللہ کے دہشت گرد ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
نقیب اللہ کی ہلاکت پر اس کے اہلخانہ سامنے آگئے اور شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا جس پر راؤ انوار نے مقابلے کا الزام ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن پر دھر دیا لیکن سندھ حکومت نے معاملے کی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس نے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیا۔
سپریم کورٹ نے بھی نقیب اللہ قتل کیس کا از خود نوٹس لیا اور دبئی فرار ہونے کی کوشش کرنے والے راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا جب کہ عدالت نے 27 جنوری کے روز راؤ انوار کو طلب کیا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔
جب کہ راؤ انوار کیس کی تحقیقات بنائی جانے والی کمیٹی کے سامنے بھی پیش نہیں ہوئے اور انہوں نے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے صاف انکار کیا۔
سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے تین روز کی مہلت دی تھی جو آج ختم ہوچکی ہے۔
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے گزشتہ دنوں حساس اداروں کو خط بھی لکھا اور ملزم کی گرفتاری کے لیے تکنیکی اور انٹیلی جنس معاونت کی درخواست کی لیکن ملزم اب تک گرفتار نہیں ہوسکا ہے۔
ہفتے کے روز سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انہیں پتا ہوتا کہ راؤ انوار کہاں ہے تو پہلے ہی پکڑ کر لے آتے۔
پولیس کی جانب سے راؤ انوار اور جعلی پولیس مقابلے میں شامل اہلکاروں کے موبائل فون کے فرانزک تجزیئے اور سی ڈی آر کیے گئے جس سے ثابت ہوا ہےکہ راؤ انوار مقابل کے وقت وقوعہ پر موجود تھے اور تمام اہلکار و افسران ایک دوسرے سے لمحہ بہ لمحہ رابطے میں رہے۔