فاٹا کے انضمام کا بل خیبر پختونخوا اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے منظور

بل پر ووٹنگ کے دوران جے یو آئی ف کے اراکین اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے۔ فوٹو: فائل

پشاور: قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی نے بھی فاٹا کے صوبے میں انضمام سے متعلق بل منظور کر لیا۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت خیبر پختنونخوا اسمبلی کا اجلاس جاری ہے جس میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک سمیت اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد شریک ہے۔

اجلاس میں صوبائی وزیر قانون امیتاز شاہد قریشی نے فاٹا کے انضمام سے متعلق بل ایوان میں پیش کیا جس کے بعد اسمبلی میں بل پر بحث کی گئی۔

فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق بل دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا، بل کی حمایت میں 92 اور مخالفت میں صرف 7 ووٹ پڑے۔

بل کی شق وار منظوری کے عمل کے دوران جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اراکین اپنی نشستوں پر بیٹھے رہے۔

پاٹا کو 10 سال تک ٹیکسوں سے استثنیٰ کی قرارداد منظور

جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مالاکنڈ کو 10 سال کے لیے ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے اور فاٹا کی طرح ہمیں بھی 100 ارب روپے سالانہ ترقیاتی پیکج دیا جائے۔

تحریک انصاف کے رکن ڈاکٹر حیدرعلی نے پاٹا کو 10 سال تک ٹیکسوں سے استثنیٰ دینے کی قرارداد پیش کی جسے منظور کر لیا گیا۔

قرارداد پر جے یو آئی ف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز نے دستخط کیے۔

قرارداد میں ملاکنڈ میں نافذ نظام شریعہ عدل کو بحال رکھنے اور فاٹا کی طرح پاٹا کو بھی 100 ارب روپے سالانہ پیکج دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ قرارداد میں پاٹا میں بجلی پر سبسڈی دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

اقلیتی رکن بلدیو کمار کی اسمبلی آمد

اقلیتی رکن بلدیو کمار بھی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچے جن سے اسپیکر کے پی کے اسمبلی اسد قیصر نے اسمبلی رکنیت کا حلف لیا۔

قبل ازیں صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن جماعت جے یو آئی (ف) کے علاوہ مالاکنڈ ڈویژن کے اراکین کی جانب سے بھی بل کی مخالفت سامنے آئی ہے۔ 

مالاکنڈ ڈویژن کے 24 اراکین اسمبلی نے بل کے متن پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ بل میں فاٹا کے ساتھ پاٹا کو شامل کرنا زیادتی ہے، اگر حکومت پاٹا کی حیثیت تبدیل کرنا چاہتی ہے تو پیکیج کا اعلان کرے۔ 

خیبرپختونخوا اسمبلی کے باہر جمعیت علماء اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے فاٹا انضمام بل کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا جس کے دوران پولیس اور مشتعل مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ 

یاد رہے کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہوچکا ہے۔

تمام جماعتوں نے اپنے اراکین کو آج ہونے والے اجلاس میں بروقت پہنچنے کی تاکید کی ہے، بل کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ 

اسمبلی کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق اس وقت 124 اراکین پر مشتمل اسمبلی میں دو اراکین کی غیر موجودگی کی وجہ سے موجودہ تعداد 122 ہے۔ 

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے متعلق بل کی منظوری کے لئے ایوان کی کل تعداد کا دو تہائی یعنی 82 ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے۔ 

اس وقت ایوان میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 61 ہے تاہم حالیہ سینٹ انتخابات کے بعد کچھ اراکین پارٹی چھوڑ کر جاچکے ہیں یا انہیں نکال دیا گیا ہے جس کے بعد پی ٹی آئی کے اراکین کی موجودہ تعداد 50 سے بھی کم ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق اس وقت فاٹا اصلاحات کی حامی جماعت مسلم لیگ (ن) کے پاس 15، پیپلز پارٹی 11 اور جماعت اسلامی کے پاس 8  اراکین ہیں جب کہ اے این پی 5، قومی وطن پارٹی 3، مسلم لیگ (ق) کے 3 تین اراکین ہیں۔

فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کی واحد مخالف جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کے صوبائی اسمبلی میں 17 ممبران ہیں۔

فاٹا اصلاحات بل:

بل کے متن کے مطابق بل کی منظوری کے بعد فاٹا اور پاٹا کو آئین سے حذف کر دیا گیا، فاٹا کی قومی اسمبلی سے 12 نشستیں ختم ہوجائیں گی جس کے بعد قومی اسمبلی کی نشستوں کی مجموعی تعداد 342 سے کم ہو کر 336 ہو جائے گی۔

بل کے متن کے مطابق خیبرپختوانخوا کی نشستوں کی تعداد 48 سے بڑھ کر 55 ہو جائے گی جب کہ بلوچستان کی نشستوں کی تعداد 20، سندھ کی 75 اور اسلام آباد کی 3 ہوگی، پنجاب کی نشستوں کی تعداد 174 سے کم ہو کر 173 ہو جائے گی۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کی نشستیں 145 ہو جائیں گے جس میں فاٹا کے علاقوں سے 16، خواتین کی 4 اور اقلیتوں کی ایک نشست ہو گی۔

بل کے متن کے مطابق 2018 کے انتخابات میں فاٹا سے منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے ممبران پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا جب کہ فاٹا سے موجودہ ممبران سینیٹ پر بھی اس کا فوری اطلاق نہیں ہوگا اور وہ اپنی مدت کی تکمیل تک سینیٹ کے ممبر رہیں گے۔

فاٹا اصلاحات بل کے مطابق فاٹا سے انگریز دور کا رائج نظام فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا اور صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔

بل کے مطابق سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا جب کہ پاٹا اور فاٹا میں 5 سال کے لیے ٹیکس استثنا دیا جائے گا۔

این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے اور 10 سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکے گا۔

فاٹا کیا ہے ؟

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کو فاٹا کہا جاتا ہے جو 7 ایجنسیز اور 6 فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل ہے۔

فاٹا کے علاقوں میں مہمند ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، خیبرایجنسی، کرم ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے علاوہ ایف آر پشاور، ایف آر بنوں، ایف آر کوہاٹ، ایف آر لکی مروت، ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان اور ایف آر ٹانک کے علاقے شامل ہیں۔

فی الحال فاٹا کسی صوبے کا حصہ نہیں بلکہ یہ علاقے اپنی الگ حیثیت رکھتے ہیں، فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے لیے آئین میں 31ویں ترمیم کی گئی ہے جس پر عمل جاری ہے۔

پاٹا اور فاٹا میں فرق

اکثر لوگ فاٹا اور پاٹا میں فرق نہیں کرتے اور یہ دونوں مختلف جگہوں کو کہا جاتا ہے۔

پاٹا وہ چند علاقے ہیں جو صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے زیر انتظام تھے، 1970ء کے لگ بھگ ان علاقوں کی قبائلی حیثیت ختم کر کے انہیں صوبوں میں ضم کیا گیا اور 1995 میں ان علاقوں کو باقاعدہ طور پر اضلاع کی حیثیت دی گئی۔

خیبرپختونخوا کا پاٹا ان علاقوں پر مشتمل تھا، سوات، چترال، دیر بالا، دیر، بونیر، شانگلہ، کوہستان، تورغر اور مالاکنڈ تاہم اب یہ اضلاع کی حیثیت رکھتے ہیں۔

بلوچستان کے پاٹا میں شامل علاقوں میں ژوب، قلعہ سیف اللہ، موسیٰ خیل، شیرانی، لورالائی، بارکھان، کوہلو، ڈیرہ بگٹی اور دالبندین تھے جنہیں اب ضلع کی حیثیت حاصل ہے۔

مزید خبریں :