26 جون ، 2018
ٹیسٹ اوپنر احمد شہزاد کے ڈوپ سیمپل میں حشیش کی مقدار پائی گئی ہے، حشیش کا نشہ عام طور پر تفریحی نشہ کہلاتا ہے جس کا شمار قوت بخش ادویات میں نہیں ہوتا۔
چوںکہ حشیش قوت بخش نشہ نہیں ہے اس لیے اگر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) چاہتا تو احمد شہزاد زمبابوے کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم میں شامل ہوسکتے تھے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے احتیاطی طور پر احمد شہزاد کو پاکستان ٹیم میں شامل کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا۔
پی سی بی میں ڈاکٹر ریاض اس کیس کو ہینڈل کررہے تھے جو چھٹیوں پر ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں ڈاکٹر سہیل سلیم اس کیس کو دیکھ رہے ہیں۔
پی سی بی کو پاکستان اسپورٹس بورڈ اسلام آباد میں واقع حکومت کی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کی کیمیائی رپورٹ کی تصدیق کا انتظار ہے۔
اس سے قبل اسپنر عبدالرحمن نے بھی انگلینڈ میں تفریحی نشے کے لیے چرس استعمال کی تھی اور ان پر انگلش کرکٹ بورڈ نے تین ماہ کی پابندی عائد کی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی سی سی کے قوانین پر صرف قوت بخش ادویات استعمال کرنے پر کھلاڑی پر پابندی لگائی جاتی ہے۔
احمد شہزاد کے معاملے پر پاکستان کرکٹ بورڈ مسلسل خاموش ہے اور بات کرنے سے گریز کررہا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے صرف یہ بیان دیا گیا کہ ٹیم کے ایک کھلاڑی کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت پایا گیا ہے اور اس مرحلے پر اس کرکٹر کا نام نہیں بتایا جائے گا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے بدھ کو ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ ایک پاکستانی کرکٹر کا ڈوپ ٹیسٹ ممنوعہ شے کے استعمال کی وجہ سے مثبت آیا ہے۔
پی سی بی کے بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ آئی سی سی کے قواعد وضوابط کے تحت اس کرکٹر کا نام نہیں بتا سکتا اور نہ ہی اس پر فرد جرم عائد کرسکتا ہے جب تک حکومت کی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کی کیمیائی رپورٹ کی تصدیق نہیں ہوجاتی۔
احمد شہزاد کا یہ ڈوپ ٹیسٹ فیصل آباد کے پاکستان کپ کے دوران لیا گیا تھا جس کی رپورٹ اب آئی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں تمام مروجہ قانونی تقاضوں کے پورا ہونے کے بعد اس کرکٹر کا نام سامنے لایا جائے گا جس کے بعد تحقیقاتی عمل شروع ہوگا۔
اس کھلاڑی پر دو سال تک پابندی عائد ہو سکتی ہے لیکن یہ اس پر منحصر ہے کہ ممنوعہ شے کون سی تھی۔
پاکستان کے آخری کھلاڑی جن پر ڈوپ ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی تھی وہ رضا حسن تھے۔
2015 میں ہونے والے ڈوپ ٹیسٹ میں ان کا کوکین کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا اور ان پر 2017 تک کی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔