05 دسمبر ، 2018
واشنگٹن: وائٹ ہاؤس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو خط بھیجے جانے کی تصدیق کردی۔
ترجمان نیشنل سیکیورٹی کونسل نے خط کی تفصیل بتائے بغیر کہا کہ پاکستان سے افغان امن عمل کے لیے مکمل حمایت کی درخواست کی گئی ہے۔
دوسری جانب پاکستان سے افغان مصالحت کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے ساتھ تعاون پر بھی زور دیا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق خط میں واضح کیا گیا ہے کہ افغان امن عمل میں پاکستان کی مدد پاک امریکا شراکت کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہے اور پاکستان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر طالبان کے ٹھکانے نہ بننے دے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے ٹی وی اینکرز اور سینئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں خط لکھا ہے، جس میں پاکستان سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تعاون مانگا گیا ہے۔
بعدازاں دفتر خارجہ کی جانب سے بھی اس بات کی تصدیق کی گئی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور امریکا کے درمیان مل کر کام کرنے کے مواقع تلاش کرنے اور نئی شراکت داری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مسئلہ افغان کے مذاکراتی تصفیے کے لیے پاکستان سے تعاون طلب کیا ہے۔
پاک-امریکا تعلقات میں تناؤ
رواں برس یکم جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان مخالف ٹوئیٹ کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔
جنوری میں ٹرمپ نے اپنے پیغام میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہم نے گزشتہ 15 سالوں کے دوران پاکستان کو 33 ملین ڈالر امداد دے کر حماقت کی جبکہ بدلے میں پاکستان نے ہمیں دھوکے اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں دیا'۔
بعدازاں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی پاکستان کی سیکیورٹی معاونت معطل کرنے کا اعلان کردیا جبکہ پاکستان کو مذہبی آزادی کی مبینہ سنگین خلاف ورزی کرنے والے ممالک سے متعلق خصوصی واچ لسٹ میں بھی شامل کردیا گیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک اور دیگر افغان طالبان کے خلاف کارروائی تک معاونت معطل رہے گی۔
گذشتہ ماہ بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'پاکستان نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کیا'۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ 'ہم پاکستان کو سالانہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر سے زیادہ دیتے تھے، ہم پاکستان کو سپورٹ کر رہے تھے اور القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن وہاں ملٹری اکیڈمی کے قریب آرام سے رہائش پریز تھا۔پاکستان میں ہر کوئی اسامہ بن لادن کے بارے میں جانتا تھا لیکن انہوں نے ہمیں اس حوالے سے آگاہ نہیں کیا'
امریکی صدر نے بعدازاں ٹوئٹر پر بھی اسی قسم کے بیانات داغے، جس پر پاکستانی قیادت کی جانب سے بھرپور ردعمل سامنے آیا۔
اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر کا 'ریکارڈ درست' کرتے ہوئے کہا کہ 'نائن الیون حملوں میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کے غلط دعوے دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کو جانی و مالی نقصان کی صورت میں لگنے والے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے'۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ 'امریکی صدر کو تاریخی حقائق سے آگاہی کی ضرورت ہے، پاکستان نے امریکی جنگ میں بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے لیکن اب ہم وہی کریں گے جو ہمارے اور ہمارے لوگوں کے مفاد میں بہتر ہوگا'
واضح رہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، لیکن امریکا اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتا ہے۔