سیلفی کا شوق، اک جنون یا خطرہ؟

تحقیق کاروں کے مطابق سیلفی کے جنون کا نوجوان ذہنوں اور رویوں پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ فوٹو کریڈٹ : دی ڈیلی ڈاٹ 

پہلے میں ایک سیلفی لے لوں! کانوں میں پڑنے والا یہ جملہ اب عام ہو چکا ہے۔

زیادہ تر نوجوان سوشل میڈیا کو اظہار رائے کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس اظہار کا سب سے بڑا حصہ ہے سیلفی، کچھ میں یہ سیلفی شوق سے بڑھ جاتی ہے اور پھر اسے  سیلفی جنون کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا لیکن یہ جنون کسی خطرے کی علامت بھی ہو سکتا ہے۔

جرنل آف ارلی اڈولینس میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق وہ نوجوان جو آن لائن اپنی سیلفیاں زیادہ شیئر کرتے ہیں، وہ اپنے ظاہر کے بارے میں  اپنی عمر سے پہلے باشعور ہو جاتے ہیں اور یہی شعور انہیں اپنے بارے میں منفی خیالات میں مبتلا کر دیتا ہے۔

امریکن یونی ورسٹی کی طالبہ الیسیا سیلومن نے نوجوانوں اور سیلفیوں کے درمیان تعلق پر اپنی تحقیق مکمل کی ہے۔

الیسیا کے مطا بق نوجوان ہمیشہ اپنے بارے میں اچھا سننا چاہتے ہیں اس لیے وہ آن لائن تصویر پوسٹ کرنے سے پہلے اپنی بہترین تصویر کا انتخاب کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحقیق میں سیلفی کو ان بچوں کے لیے خطرہ نہیں کہا گیا جو کبھی کبھار سیلفی کھینچ کر پوسٹ کر دیتے ہیں لیکن ہر وقت ایسا کرنے والے بچوں کے لیے ہر عمر میں  یہ خطرے کی علامت ہے۔

2015 کامن سینس میڈیا رپورٹ کے نوجوان لڑکیاں اپنے آن لائن تاثر کے لیے بہت پریشان رہتی ہیں، 35 فیصد لڑکیاں عام تصویروں میں خود کو ٹیگ کیے جانے کے خوف میں مبتلا رہتی ہیں اور 27 فیصد خود اپنی پوسٹ کی جانے والی تصویروں میں کیسے نظر آتی ہیں کہ بارے میں فکر مند رہتی ہیں۔

مزید 22 فیصد اپنی تصویر نظر انداز ہونے پر بہت برا محسوس کرتی ہیں اور  اپنی پسندیدہ تصویر پر مطلوبہ لائکس اور کمنٹس نہ ملنے کی صورت میں تو یہ پریشانی وہ اپنے اوپر طاری کر لیتے ہیں۔

الیسیا نے کہا ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کی سیلفیز اور ان کے خود پر دھیان کے حوالے سے تعلق پر نظر رکھیں، یہ تعلق بڑے مسائل کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔

اپنی تصویروں میں خود کو بہترین شکل و صورت اور جسمانی ساخت منوا لینے میں نوجوان اپنے خدو خال کے حوالے سے منفی رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہی رویے انہیں ذہنی دباؤ، تنہائی پسندی اور خود پسندی کا شکار کر دیتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا خود کوئی منفی پلیٹ فارم نہیں ہے۔ والدین کو چاہیے کو وہ بچوں کے ہاتھ میں سوشل میڈیا کا کنٹرول مکمل طور پر نہ دے دیں اور نظر رکھیں کہ ان کے بچے اپنے آپ پر کتنی توجہ دے رہے ہیں اور اس دوران ان کا رویہ کیا ہے۔

مزید خبریں :