دنیا
Time 09 نومبر ، 2019

بھارتی سپریم کورٹ بابری مسجد تنازعے کا فیصلہ آج سنائے گی


بھارتی سپریم کورٹ ایودھیا میں بابری مسجد کے طویل تنازع کا حتمی فیصلہ آج یعنی ہفتہ 9 نومبر کو سنائے گی۔

فیصلہ آنے سے سے قبل ایودھیا سمیت بھارت بھر میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔

ریاست اترپردیش کے ضلع فیض آباد میں بابری مسجد کے اطراف سمیت اہم عبادت گاہوں کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ بابری مسجد تنازع کا فیصلہ مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے 10 بجے سنائے گی۔

سپریم کورٹ میں بابری مسجد کیس کی سماعت چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی۔

سپریم کورٹ میں 40 روز تک جاری رہنے والے بابری مسجد کیس کی سماعت 16 اکتوبر 2019 مکمل ہوئی، جس کے بعد فیصلہ محفوظ کیاگیا جبکہ عدالت نے فریقین کو مزید دلائل جمع کرانے کیلئے 3 دن کی مہلت بھی دی تھی۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ستمبر 2010 کے فیصلے کے خلاف دائر 14 اپیلوں پر سماعت کی جس میں سنّی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام لالہ کے درمیان ایودھیا میں 2.77 ایکڑ متنازع زمین کو برابر تقسیم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

سماعت کے آخری روز مسلمانوں کی جانب سے سینیئر ایڈوکیٹ راجیو دھون نے ہندو فریق کی جانب سے پیش کیے گئے نقشے کو مسترد کرتے ہوئے پھاڑ دیا جس کے بعد عدالت میں فریقین کے درمیان گرما گرمی بھی ہوئی تاہم ہندو فریق کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا۔

بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگئی 17 نومبر کو ریٹائر ہورہے ہیں اور توقع کی جارہی تھی کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی بھارت کی اعلیٰ عدالت فیصلہ سنادے گی۔

بابری مسجد کا پس منظر

1528ء میں مغل دور حکومت میں بھارت کے موجودہ شہر ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے حوالے سے ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔

برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کیلئے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔

1992 میں ہندو انتہا پسند پورے بھارت سے ایودھیا میں جمع ہوئے اور ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں 6 دسمبر کو سولہویں صدی کی یادگار بابری مسجد کو شہید کر دیا۔

حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کیلئے کئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن آج تک کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔

مزید خبریں :