07 فروری ، 2020
فخرالدین جی ابراہیم مرحوم بھی کمال کے آدمی تھے، ایک بار کہنے لگے تمہیں پتا ہے میں صبح سب سے پہلے اخبار میں پہلا صفحہ پڑھنے کے بعد کھیلوں کی خبریں پڑھتا ہوں کیونکہ اس میں کسی کی جیت تو کسی کی ہار والی خبریں ہوتی ہیں۔
جیت خوشی دیتی ہے تو ہار برداشت کرنے کا حوصلہ، پچھلے دنوں اُن کی یہ بات مجھے اس لئے یاد آئی کہ بھارت نے اس سال پاکستان میں منعقد ہونے والے ایشیا کپ میں شرکت سے معذرت کرلی ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان بھی آئندہ سال T-20ورلڈ کپ میں شرکت کرنے بھارت نہیں جائے گا، بھارت کا کھیلوں میں سیاست لانا انہی کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی مرحوم کے بیانیے کی نفی ہے جس کے مطابق کھیل کو سیاست سے دور رکھنا چاہئے۔
دراصل میرا کرکٹ کا جنون پرانا ہے، شاید صحافت میں نہ آتا تو کسی لیول کی کرکٹ کھیل رہا ہوتا، پاک بھارت مقابلے میں جذبہ بھی ہوتا ہے اور جنون بھی، بدقسمتی سے بھارت نے اس کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
میں اُن دنوں ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی سے وابستہ تھا، نواز شریف وزیراعظم اور مشاہد حسین سیّد وزیر کھیل تھے، پاکستانی ٹیم کو بھارت جانا تھا خبر آئی کہ شیوسینا کے انتہاپسند غنڈوں نے وکٹ کھود ڈالی اور دھمکی دی ہے کہ ٹیم آئی تو کھیلنے نہیں دیں گے۔
دورہ کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا تھا، مجھے آج بھی یاد ہے وہ غالباً اتوار کا روز تھا، میں دفتر میں بور ہو رہا تھا کہ خبر کہاں سے لاؤں، سوچا مشاہد صاحب کو فون کرکے ٹیم کے جانے یا نہ جانے کے بارے میں معلوم کروں، ہو سکتا ہے کوئی خبر نکل آئے۔
اتفاق سے فون مل گیا، کچھ دیر سیاست پر بات ہوئی، پھر میں نے پوچھا، ٹیم کے جانے یا نہ جانے کا فیصلہ ہوا، بولے، بڑی خبر دوں! چونکہ وہ مدیر بھی رہ چکے ہیں اس لیے خبر کا بھی پتا ہوتا تھا۔
میں نے کہا نیکی اور پوچھ پوچھ، ’’ٹیم جا رہی ہے‘‘، میں نے ذرا جذباتی انداز میں دوبارہ پوچھا، کیا واقعی، ان سے بات کرنے کے بعد میں عمران خان کا ردِعمل لینے پہنچ گیا جو اپنی سیاسی مصروفیت کی وجہ سے کراچی میں تھے۔
عمران نے سنتے ہی کہا، واقعی یہ تو اچھی بات ہے، میں خیر مقدم کرتا ہوں، بس پھر کیا تھا میں نے خبر فائل کی، وہ کرکٹ کی دنیا کی اُس دن کی سب سے بڑی خبر بن گئی۔
کچھ دیر میں واجپائی صاحب کا بھی ردِعمل آگیا کہ ’’کھیل کو سیاست سے دور رکھنا چاہئے، میں نواز شریف کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں، ہمیں انتہا پسندوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں‘‘۔
اب آپ کو مزے کی بات بتاؤں جو مشاہد صاحب نے اُس کے کچھ دن بعد بتائی، کہنے لگے تمہیں پتا ہے اُس وقت جب میں نے خبر دی تھی تو فیصلہ نہیں ہوا تھا، میں اجلاس کے لئے گھر سے نکل رہا تھا، وزیراعظم ہاؤس پہنچا تو میاں صاحب کے سامنے خبر پڑی ہوئی تھی، بولے، مشاہد ابھی فیصلہ کہاں ہوا ہے تمہارے حوالے سے خبر چل رہی ہے اور واجپائی صاحب کا ردِعمل بھی آگیا ہے، کیا کریں میں نے کہا میاں صاحب ٹیم کو جانے دیں ہمیں فائدہ ہوگا۔ بولے میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔ ٹیم گئی اور کسی بڑے حادثے کے بغیر دورہ ختم ہوا۔ اس سے پہلے جنرل ضیاء نے بھی سخت کشیدگی میں کرکٹ ڈپلومیسی کی تھی۔
عمران خان وزیراعظم بنے تو مجھے پورا یقین تھا کہ وہ بھارتی کھلاڑیوں کو دعوت دیں گے، میں نے کہا تھا کہ معاملہ عوام اور کھلاڑیوں کا نہیں، رکاوٹ سیاسی فیصلے ہیں۔
پوری بھارتی ٹیم نے اپنے دستخط سے کرکٹ بیٹ عمران کو بھیجا، سنیل گواسکر اور کپل دیو نے مبارکباد دی مگر اپنی نجی مصروفیات کے باعث حلف برداری میں نہ آ سکے البتہ نامور کرکٹر سدھو نے پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔
کرتارپور کوریڈور جہاں جنرل قمر باجوہ اور عمران کا کریڈٹ ہے، وہیں سدھو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے، آج کا بھارت انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہے۔
پاکستان نے دہشت گردوں کو شکست دی ہے اور انتہا پسندی کے خاتمہ کی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے، وزیراعظم عمران خان کی سوچ پہلے دن سے یہی رہی ہے کہ دونوں ملک ٹیبل پر آئیں گے تو دونوں جانب بڑھتی ہوئی غربت کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا اور کشمیر کا مسئلہ بھی وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق حل ہوگا۔
آج پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ واپس آرہی ہے، سری لنکا آیا، بنگلا دیش کی ٹیم آئی اور اب MCCکی ٹیم بھی آئندہ ماہ آ رہی ہے، PSLاس سال پورے کا پورا یہیں ہو رہا ہے۔
مسئلہ کسی کے کریڈٹ لینے کا نہیں ہے، کھیلوں کے اچھے مقابلے دیکھنے کو ملیں گے تو لوگوں کی ٹینشن میں کچھ کمی آئے گی، حکومت کے اقدامات نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے تو عمران کی شخصیت نے بھی، مگر ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ آئیڈیا نجم سیٹھی کا تھا، کم از کم ان کا کردار فراموش کرنا زیادتی ہوگی۔
میں نے کہا تھا نا کہ مجھ میں کرکٹ کا جنون ہے، نجم صاحب کرکٹ بورڈ کے سربراہ تھے، ایک دن خبر آئی کہ پی سی بی قذافی اسٹیڈیم کا نام تبدیل کر رہا ہے، میں نے فوراً انہیں فون کیا، بولے دباؤ ہے کیونکہ مغرب کو قذافی پسند نہیں۔
میں نے کہا نجم صاحب! اس شخص نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے بہت کچھ کیا تھا، کیا ہمارے لیے یہ خدمت کم ہے؟ نام نہیں بدلا گیا، بھارت کے نامور کرکٹر آج بھی کراچی پریس کلب کے ’’اعزازی ممبر‘‘ ہیں۔
بس یہی فرق ہے مثبت اور منفی سوچ کا، کاش ایشیا کپ میں بھارت آئے اور ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں پاکستان جائے، انتہا پسندی اور کٹر سوچ کو شکست ہر صورت ہوگی۔